خود اپنے ہاتھوں سے اپنی بصیر آنکھوں میں
سوئیاں گاڑ دی ہیں
کیوں کہ انگلیاں تو وہی لکھیں گی
جو آنکھیں آنکھیں دیکھیں گی
اندھی بصیرت
جھوٹ کی بستی میں بڑی غنیمت ہے
سماعتوں میں سیسہ پگھلا کے ڈال دیا ہے یوں کہ
آدرش کی چیخیں
سنائی نہ دے سکیں
اس جہاں فانی میں زندگی بہت سستی ہے
آرزو کی قیمت میں
نفس کے بازار میں روز بکنے نکلتی ہے
نادیدہ اوہام
فکر کی انی سے روح کو چھیدتے رہتے ہیں
زباں کے تیر سے
سننے والوں کو زخم زخم کر کے بھی
سکوں نہیں ملتا
زندگی کے قفس سے رہائی مل بھی جائے تو
چھید چھید روحوں کو مکتی نہیں ملتی
ان دیکھے خوابوں کی تعبیریں
زمیں والوں سے دل کا رابطہ ٹوٹنے نہیں دیتیں
خار خار سوچوں کے سنگ بتانا
کتنا مشکل ہے
گر کبھی تمہاری بینائی
دیکھ پائے تو جاں جاؤ گے کہ
چھید چھید روحوں کی کیا کہانی
ہوتی ہے