تپتی ریت پر برہنہ پا ہے سفرِ زیست رواں دواں
خواب دریدہ چشم نم اپنی بےحوصلگی کو گر دے بھی تو دے دلاسا کیا
ہیں چہار سو تاریکیاں
شہرِ دل کی گلیوں میں سرگرداں کچھ خواب ہیں
بے نشاں منزلیں ڈھونڈتی ہیں پتا ایسے نگر کا جہاں
حیات گلاب ہو
اس شہر پر ہجوم میں
اک چہرہ بھی پورا نہیں
مصلحتوں کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے لوگ ہیں
جانتے ہوئے بھی سچ جانے کیوں خاموش ہیں
منظر کی بد صورتی دلیلوں سے چھپتی نہیں
رویوں کی بدصورتی خوبصورت لفاظی کا ملبوس اوڑھ کر بھی اپنی بدنمائی چھپا نہیں سکتی
زندگی سچ اور جھوٹ کے کھیل میں اُلجھ کر
ہزارہا ٹکروں میں بٹ گئی ہے
کوئی بھی چہرہ مکمل نہیں دِکھتا
جب مصلحتوں کے سیسے سے کان بند ہوں تو
درد کی چیخیں سینے میں ہی گھٹی رہ جاتی ہیں
تعفن زدہ سوچیں لے کر ماحول کو آلودگی سے بچایا نہیں جا سکتا
سچ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھیں تو منظر کی بد نمائی واضح ہو!
”آنکھ تو وہی دیکھتی ہے جو اسے سوچ کی بینائی دکھاتی ہے‘‘