اسلام آباد: اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار منشا یاد کو دنیا سے رخصت ہوئے 12 برس بیت گئے۔ ممتاز افسانہ نگار منشا یاد 5 ستمبر 1937ء کو حافظ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام محمد منشا تھا، تاہم منشا یاد کے قلمی نام سے ادبی سفر کا آغاز کیا، انکا پہلا افسانہ 1955ء میں منظر عام پر آیا۔ منشا یاد نے ترقی پسند تحریک کے غلبے کے باوجود اپنے لئے نئی اور الگ راہ تلاش کی، اُن کا نقطہ نظر تھا کہ کہانی قاری کی سمجھ میں آنی چاہیے۔ ’بند مٹھی میں جگنو‘، ماس اور مٹی اور’ خلا اندر خلا ‘ ان کی کہانیوں کے نمائندہ مجموعے ہیں، جنون، بندھن، آواز اور’پورے چاند کی رات‘منشا یاد کے معروف ٹی وی ڈرامے ہیں۔ منشا یاد پنجابی بھی اردو کی طرح روانی سے لکھتے تھے، اُن کے پنجابی ناول ’’ٹاواں ٹاواں تارا ‘‘کو ایک ڈرامہ سیریل میں ڈھالا گیا جو ’’راہیں‘ کے نام سے سرکاری ٹی وی پر نشر ہوا اور خاصی مقبولیت حاصل کی۔ منشا یاد نے اسلام آباد میں حلقہ ارباب ذوق کی شاخ بھی قائم کی، حکومت پاکستان نے 2004ء میں منشا یاد کو تمغۂ برائے حسن کارکردگی سے نوازا، 2006ء میں انہیں پنجابی میں بہترین ناول نگاری کا بابا فرید ادبی ایوارڈ ملا جبکہ 2010ء میں عالمی فروغ ادب ایوارڈ بھی دیا گیا۔
اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار منشا یاد 15 اکتوبر 2011ء کو اسلام آباد میں وفات پا گئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔