اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں رائج سودی نظام غیر شرعی قرار دے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے سود کیخلاف درخواستوں پر 19 سال بعد فیصلہ سنا دیا۔وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ اسلامی بینکنگ کا ڈیٹا عدالت میں پیش کیا گیا، سود سے پاک بنکاری دنیا بھر میں ممکن ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں، معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے، بینکوں کے منافع کی تمام اقسام سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ عدالت نے سود کیلئے سہولت کاری کرنیوالے تمام قوانین، شقیں اور انٹرسٹ ایکٹ 1839 مکمل طور پر غیر شرعی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کر دی۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کیخلاف ہے، ملک سے ربا کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہوگا، ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول ربا کے زمرے میں آتا ہے، بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے، قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو انٹرسٹ ربا کہلائے گا، تمام بینکوں کی جانب سے اصل رقم سے زائد رقم لینا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ حکومت کوہدایت دی جاتی ہے کہ انٹرسٹ کا لفظ ختم کرے، ربا مکمل طور پر ہر صورت میں غلط ہے، ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا، سی پیک کیلئے چین بھی اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے، خلاف شریعت قرار دیئے گئے تمام قوانین یکم جون 2022 سے ختم ہو جائیں گے، شرعی عدالت کا حکومت کو فیصلے پر عملدرآمد کیلئے 5 سال کا وقت، آئی ایم ایف، ورلڈبینک سمیت عالمی اداروں سے ٹرانزیکشنز سود سے پاک بنائی جائیں۔ خیال رہے سپریم کورٹ نے 2002 میں مقدمہ شریعت کورٹ کو دوبارہ فیصلے کیلئے بھجوایا تھا۔