منڈی بہاءالدین

تحریر: لیکچرار مجاہد فرساد

1506عیسوی میں صوفی صاحب بہاءالدین ، پنڈی شاہ جہانیاں سے اس علاقہ میں آئے تو انہوں نے ایک بستی کی بنیاد رکھی جس کا نام پنڈی بہاؤالدین رکھا گیا ،
جسے اب پرانی پنڈی کے نام سے جانا جاتا ھے-انیسویں صدی میں یہ علاقہ برطانوی حکومت کے زیر تسلط آیا -اس علاقے میں کچھ زمین بنجر اور غیر آباد پڑی تھی-

1902 میں انگریز سرکار نے آبپاشی کے نظام کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا تو اسی منصوبے کے تحت نہر لویر جھلم بھی کھودی گئی اور اس سے علاقے کو سیراب کیا گیا-علاقے کی چک بندی کی گئی- اکاون چک بنائےگے اور زمین ان لوگوں میں تقسیم کی گئی جنہوں نے سلطنت برطانیہ کے لیے کام کیا تھا-علاقے کو گوندل بار کا نام دیا گیا- چک نمبر51 مرکزی چک قرار پایا جو کہ آج منڈی بہاوالدین کے نام سے مشہور ہے-پلان کے مطابق اس کی تعمیر کی گئی اور یہاں پر غلہ منڈی قائم کی گئی- بیسویں صدی کے اغاز میں مسلمان،ہندو اور سکھ تاجر و زمیندار یہاں آ کر آباد ہونے لگے- 1916ء میں حکومت برطانیہ نے اپنے دفاعی اور تجارتی مفاد میں پنڈی بہاوالدین ریلوے سٹیشن قائم کیا- 1920ء میں چک نمبر 51 کو منڈی بہاوالدین (مارکیٹ بہاوالدین) کا نام دینے کا اعلان کیا گیا- 1923ء میں قصبہ کی ماسٹر پلان کے مطابق دوبارہ تعمیر کرتے ھوئے گلیوں اور سڑکوں کو سیدھا اور کشادہ کیا گیا- 1924ء میں پنڈی بہاوالدین ریلوے سٹیشن کا نام منڈی بہاوالدین رکھا گیا- 1937ء میں ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دیا گیا اور 1941ء میں میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا- 1946ء میں نو دروازے اور چار دیواری تعمیر کی گئ-1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو ھندو اور سکھ بھارت چلے گے جبکہ بھارت سے نقل مکانی کر کے پاکستان آنے والے بہت سے مسلمان یہاں آباد ھوئے-1960ء میں سب ڈویژن کا درجہ دیا گیا- 1963ء میں رسول بیراج اور رسول قادرآباد لنک نھر کا منصوبہ شروع کیا گیا – منصوبے سے متعلقہ سرکاری ملازمین اور غیر ملکی ٹھییکیداروں کے لیے منڈی بہاوالدین کے نزدیک ایک بڑی کالونی قائم کی گئی-1968ء میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا- یہ منصوبہ منڈی بہاوالدین کی کاروباری نشوونما میں اضافے کا سبب بنا- 1993ء میں وزیر اعلئ پنجاب میاں منظور احمد وٹو نے منڈی بہاوالدین کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا- 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم اور راجہ پورس کے درمیان مشھور اور تاریخی لڑائی منڈی بہاوالدین کے مغرب میں دریائے جہلم کے جنوبی کنارے کھیوا کے مقام پر لڑی گئ- اس لڑائی میں راجہ پورس کو شکست ھوئ جس کے نتیجہ میں سکندر اعظم کو دو شہر ملے ایک اس جگہ پر تھا جہاں ان دنوں مونگ ہے اور دوسرا ممکنہ طور پر جہاں پھالیہ ھے- پھالیہ سکندر اعظم کے گھوڑے بیوس پھالس کے نام کی بگڑی ھوئی شکل ھے- کچھ مورخین کے خیال کے مطابق وہ دو شہر جلالپور اور بھیرہ والی جگہ پر تھے- منڈی بہاوالدین سے تھوڑے فاصلے پر چیلیانوالہ کا وہ تاریخی مقام ھے جہاں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان 1849ء میں دوسری لڑائی ہوئی تھی-چیلیانوالہ کے نزدیک رکھ مینار میں اس جنگ میں کام آنے والے کئی انگریز افسر اور سپاھی دفن ھیں- منڈی بہاوالدین صوبہ پنجاب کا خوبصورت اور مشہور شہر ھے- اس کے شمال مغرب میں دریائے جھلم اسے ضلع جھلم سے الگ کرتا ھے جبکہ جنوب مشرق سے دریائے چناب اسے گجرات ،گوجرانوالہ اور حافط آباد سے علیحدہ کرتا ھے-مغرب میں ضلع سرگودھا واقع ھے- رقب2673 مربع کلو میٹر اور سطح سمندر سے بلندی 204 میٹر ھے- ضلع میں تین تحصیلیں منڈی بھاوالدین ، پھالیہ اور ملکوال ہیں جبکہ یونین کونسلز کی تعداد 65 ھے- بڑے قصبے سوہاوہ، چیلیانوالہ،گوجرہ،ھیلاں،کٹھیالہ شیخاں،مانگٹ،مونگ،میانوال رانجھا،پاہڑیانوالا،قادراباد،رسول اور واسو ھیں- آرائیں،گجر،کہوٹ،کشمیری،راجپوت،شیخ،مرزا اور سید قبیلوں کے لوگ بھی آباد ھیں-زیادہ بولی جانے والی زبانیں پنجابی اور اردو ہیں- اھم فصلیں گندم،دھان،گنا،آلو،تمباکو ھیں جبکہ چارہ کے لیے جوار،باجرہ،مکئ اور برسیم وغیرہ بھی کاشت کیے جاتے ھیں- صنعتی یونٹوں کی تعداد نو سو کے قریب ھے- شہر کے نزدیک شاہ تاج شوگر مل واقع ہے جس کا رقبہ بیس ایکڑ پر محیط ھے- اس کا شمار علاقے کی بڑی ملوں میں ھوتا ھے معیاری چینی تیار کر کے ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رھی ھے-

اپنا تبصرہ بھیجیں