سیاسی تناؤ اور ملکی معیشت – آمنہ حمید

پاکستان میں سیاست جس رخ پر گامزن ہے یہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں. یہ ایک المیہ ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کیے لیے ریاست کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاستی اداروں پر کھلے عام الزامات لگا کر ریاست کو کمزور کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں. کیا اب اپوزیشن اسی کا نام ہے کہ کوئی اٹھ کر ریاستی اداروں کے خلاف محاذ کھولے، مورچہ زن ہو کر قومی اثاثوں کے راگ الاپے؟ یہ کون سی سیاست ہے؟ کیا ملک کو نقصان پہنچانا یا عالمی برادری کے سامنے ایک برا تاثر پیدا کرنے کا نام سیاست ہے؟ تو پھر اس طرح کی سیاست کو کم از کم ایک محبِ وطن شخص قبول نہیں کر سکتا.
وطنِ عزیز پاکستان آج جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس کا ہم سب کو بخوبی علم ہے کہ ایک طرف معاشی تنگیاں اور قرضوں کا بوجھ ہے، سیاسی عدمِ استحکام اور امن و امان میں بگاڑ کی وجہ سے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہورہا ہے۔ گزشتہ مالی برس میں ملک کی مجموعی پیداوار کی شرح نمو انتہائی کم رہی اور اس وقت بھی جو سیاسی رسہ کشی جاری ہے اس وجہ سے رواں مالی سال میں بھی یہ شرح مزید کم رہنے کا امکان ہے۔ چوں کہ حکومت ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں کے ذریعے رقم جمع کرتی ہے لیکن جب آمدنی سے زیادہ اخراجات ہوجائیں تو حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے جیسا کہ حال ہی میں آئی ایم ایف سے حکومت نے قرض لیا ہے۔ یہ اخراجات مزید اضافے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو مزید قرضوں کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان میں سیاسی رسہ کشی گزشتہ چار سال سے جاری ہے اور اب اس میں مزید تیزی آگئی ہے تو اس سیاسی رسہ کشی سے معیشت عدم استحکام کا شکار ہونے لگی ہے. جب کہ گزشتہ چند دنوں سے حکومت اور عدلیہ میں جاری کشیدگی کی وجہ سے کاروبار پر مزید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، معیشت  کی دگرگوں صورتحال سے عام آدمی متاثر ہورہا ہے اور اُس کی قوتِ خرید بھی متاثر ہوتی جارہی ہے. جب قوتِ خرید پر منفی اثر پڑتا ہے تو طلب کم ہوجاتی ہے اور طلب کے کم ہوجانے سے پیداوار میں کمی کرنا پڑتی ہے جس کا مجموعی پیداوار پر اثر پڑتا ہے اور یہ تمام معاملات عمومی طور پر سیاسی حالات اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال کا باعث ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سرحدوں پر دشمن کا وار، اندرونی طور پر دہشت گردی کی لہر، تو دوسری جانب ان سیاستدانوں کی سازشیں ایسے نازک وقت میں بھلا دشمن کے علاوہ کون سازش کرسکتے ہیں؟ بلاشبہ یہ ان دشمن قوتوں کی کارستانی ہے کہ جو دنیا کے نقشے پر پاکستان کو نہیں دیکھنا چاہتیں اور وہ اپنے ایجنٹوں کو مختلف حلیے میں ڈھال کر سازشوں پر اتر آئی ہیں. قوم کو یہ جاننا چاہیے کہ اس نازک وقت میں اگر کوئی ذاتی مفادات کی خاطر ملکی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنا رہا ہے تو دشمن قوتوں کی ایما پر ہی اس طرح کر رہا ہوگا لہٰذا وہ ہرگز اس قوم کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا. اگر کوئی خود کو ملک اور قوم کا خیرخواہ سمجھتا ہے تو پھر مصلحت کی چادر اوڑھنے کے بجائے کھل کر سامنے آنا ہوگا اور ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بےنقاب کرنا پڑے گا۔ ملکی سلامتی سب سے اہم ہے، سیاست اس کے بعد ہے. آج بلوچستان سے لیکر فاٹا تک پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ آخر وہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کی بناء پر سیاستدان اقتدار میں آکر انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اگر یہ سیاستدان ذاتی لڑائی سے نکل کر بلوچستان اور وزیرستان پر توجہ دیں، ناراض بھائیوں کو منائیں تو شاید پاکستان کو اس طرح کے مسائل سے چھٹکارہ مل سکے۔


کالم نگارآمنہ حمید ایم اے. صحافت کی طالبہ ہیں اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں