یونین آف پنجابی جرنلسٹس کے زیر اہتمام مالی بولی دیہاڑ کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد

اسلام آباد (بیورو رپورٹ): یونین آف پنجابی جرنلسٹس (یوپی جے) کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں مالی بولی دیہاڑ کی مناسبت سے (ماں بولی دی اہمیت) کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا. اس منعقدہ پروگرام کے موقع پرصحافی برادری اورمختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پنجابی زبان کو سرکاری سرپرستی دی جائے. انگریزی کی طرح پنجابی زبان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، پرائمری تک لازمی قرار دیا جائے اور دیگر زبانوں کی طرح سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی میں پنجابی زبان کا الگ سے شعبہ تشکیل دیا جائے. ساتھ ہی پنجابی زبان کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ تقریب کا اہتمام چیئرمین پنجابی یونین آف جرنلسٹس ملک عبدالجبار، صدر افشاں قریشی، سیکریٹری جنرل ریاست علی ثانی، سیکرٹری مالیات انیلہ محمود، سیکرٹری اطلاعات نرگس جنجوعہ اور دیگر عہدیداران نے کیا.

اس موقع پرنیشنل پریس کلب اسلام آباد، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی اعلیٰ قیادت، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد، پنجابی زبان کے ادیب، شعرا و صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہوا. میزبانی کے فرائض ریاست علی ثانی اورانیلہ محمود نے سرانجام دیے۔ تقریب کے انعقاد کا مقصد پنجابی زبان کی افادیت، انفرادیت اور اس کی کھوئی ہوئی اہمیت کو زیر بحث لانا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے کہا کہ پنجابی زبان کو بھلانے کا مطلب اپنی ثقافتی اقدار سے انحراف ہے. ایسے حالات میں پنجابی یونین کا قیام خوش آئند ہے جو پنجابی زبان کے فروغ سے متعلق احسن اقدام ثابت ہوگا. جنرل سیکریٹری نیشنل پریس کلب انور رضا نے کہاکہ آج تمام زبانوں کے لوگوں کی پریس کلب میں نمائندگی موجود ہیں. پریس کلب میں تمام زبانوں کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں پنجابی زبان کے حوالے سے بھی تقریبات ہونی چاہیں اس میں نیشنل پریس کلب کے پلیٹ فارم سے مثبت کردار ادا کیا جائے گا. صدرراولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس عامر سجاد سید نے کہا کہ پنجابی سمیت پاکستان میں تمام بولی جانے والی زبانیں پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں ان کی ہم سب نے مل حفاظت کرنا ہوگی ،جوائنٹ سیکریٹری پریس کلب شکیلہ جلیل نے کہا کہ پنجابی زبان کی حیثیت کو مسخ کیا گیا ہم سب کو چاہیے کہ ملکر اسکے فروغ کے لیے کام کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اسکے ثمرات سے فیض یاب ہوسکیں،ستائیس کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد پال نے کہا کہ پنجابی بیدار ہورہے ہیں اسکا مطلب پنجابی زبان کا مستقبل روشن ہے،انہوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی میں دیگر مادری زبانوں کی طرح پنجابی زبان کا الگ سے شعبہ تشکیل دیا جائے،انکا کہنا تھا کہ پنجابی زبان کے لوک گیت دنیابھر میں مقبولیت کے حامل ہیں ،پنجابی زبان کے خلاف ہونے والے ہر پراپیگنڈہ کا ملکر جواب دینا ہوگا،سینئر صحافی طارق چوہدری نے کہا کہ پنجابی زبان کے خلاف اس قدر پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پنجابی کو سکھوں کی زبان کہا جاتا ہے جبکہ پنجابی صدیوں پرانی قدیم زبان ہے جبکہ سکھ مذہب کے تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے ،انہوں نے کہا کہ جاپان اورجرمنی میں انگریزی زبان بولنے والوں کی تعداد نہایت قلیل ہے اسکے باوجود وہ ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ انکی مادری زبان سے محبت ہے یہی پیار اور جذبہ ہمیں بھی اپنی مادری زبان کے ساتھ جوڑنا ہوگا،سینئرصحافی منیرا حمد نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی تعلیم ان کی اپنی مادری زبان میں دی جاتی ہے،ہمیں بھی اپنی مادری زبان پر فخر ہونا چاہیے ،جو لوگ اپنی مادری زبان سے منہ موڑتے ہیں تاریخ انھیں کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں رکھتی۔

چیئرمین پنجاب سیوک سانج چراغ الدین وانا نے کہا کہ زبان اظہار کا موثر ذریعہ ہے،ماں بولی ہماری ثقافت ہے،پیغمبروں نے اپنی مادری زبان میں تبلیغ کی تاکہ وہاں کے مقامی لوگ انکی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں،آج مادری زبان کوتعصب کا رنگ دے دیا گیاہے پنجاب ایک تہذیب کا نام ہے ،نئی نسل سے ورثہ چھپایا جارہا ہے،ہمارے بچوں کو سپین کی تاریخ کاعلم ہے لیکن وہ اپنی تاریخ سے ناواقف ہیںہم تعصب کو ختم کرنا چاہتے ہیں ہم رحمان بابا،شاہ لطیف کو بھی پڑھنا چاہتے ہیں ، میڈیا کی تنظیم یونین آف پنجابی جرنلسٹس کے زیر اہتمام ماں بولی دیہاڑ کی مناسب سے پنجابی کے فروغ کا اقدام خوش آئند ہے، آج ہماری بات سب تک پہنچ پائے گی. سینئر صحافی سابق جنرل سیکریٹری پی ایف یو جے فوزیہ شاہد کا کہنا تھا کہ آج بدقسمتی سے ہم پنجابی زبان کو بھولتے جارہے ہیں اگر پنجابی زبان کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات نہ ہوئے تو آنے والی نسل پنجابی سے ناآشنا ہوگی،پنجابی کلچر جو فلموں میں دکھایا جاتارہا ہے اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا یہی وجہ ہے کہ پنجابی کلچر کو بدنام کیا گیا،پنجابی زبان کو درسگاہوں میں رائج کیا جائے پنجابی ادب کے فروغ کے لیے حکومت اقدامات اٹھائے. ان کا کہنا تھا کہ پنجابی صحافیوں کی تنظیم کا قیام اور انکے زیر اہتمام ماں بولی کے فروغ کے لیے پروگرام کا انعقاد خوش آئندہ ہے ، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف قانون دان طیب نواز ملک ،سینئر صحافی ناصر اسلم راجہ اور مظہر اقبال سمیت دیگر مقررین نے بھی پنجابی کی افادیت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پنجاب صوفیا کرام ،ادب اور تہذیب رکھنے والی دھرتی ہے،دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی ترقی مادری زبان سے ہے،ماں بولی کو چھوڑنے والے ،اپنی ثقافت سے منہ موڑنے والی قومیں تباہ ہوئی ہیں. پنجاب اسمبلی میں دوران اجلاس پنجابی زبان میں تقریر کرنے پر عائد پابندی ختم کی جائے. ہمیں مادری زبان پنجابی کے فروغ کے لیے ہر سطح ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنا ہوگی.

تقریب کے اختتام پر یونین آف پنجابی جرنلسٹس کی صدر افشاں قریشی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مادری زبان ہماری پہچان ہے اس کے فروغ کے لیے ہم سب کو اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں