پاکستان میں جب بھی ہر برس ماہ اکتوبر آتا ہے تو ذہن ماضی کے بھیانک اور ہولناک قیامت خیز دن 8 اکتوبر2005ء کی ناگفتہ بہ یادوں کی جانب منتقل ہو جاتا ہے. یہ دن زندگی کا ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ پاکستانی تاریخ میں 8 اکتوبر2005ء کو متعدد خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھویا تھا. کئی قیمتی جانیں تہہ خاک ہوئیں۔ 2005ء کے ماہِ اکتوبر کی کرب ناک یادوں سے آنکھیں بھر آتی ہیں۔ یاد ہو گا کہ اُس روز راولپنڈی اسلام آباد سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایک قیامت خیز زلزلہ برپا ہوا تھا. میں بھی ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے زلزلے سے تباہ کن لرزش سے دھرم بھرم ہوتی عمارات اور اس کے نتیجے میں انسانی چیخ و پکار کے لمحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ طویل وقت گزرنے کے باوجود تاحال وہ لمحات ذہن سے معدوم نہیں ہوسکیں. مجھے وہ گھڑی ایسے ہی یاد ہے جیسے کہ یہ واقعہ کل ہوا ہو۔ رمضان کا مبارک مہینہ تھا، صبح 8 بج کر50 منٹ پر اچانک چار سو زمین جھولنے لگی. اس خطرناک زمینی لرزش نے خوف کی عجیب و غریب فضا پیدا کردی. ہر طرف افراتفری کے عالم نے موت کا ایسا خوف پیدا کردیا کہ جس سے انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا. گھر کا دروازہ کھول کر جیسے ہی باہر نکلا، عجیب منظر تھا۔ ہمارا گھر چوں کہ کچھ اونچائی پر ہے جس کی وجہ سے سامنے کا نظارہ بہت واضح ہوتا ہے، تو دیکھا کہ ہر طرف دھول کے بادل اٹھ رہے ہیں. سامنے جو آبادیاں و بازار تھے وہاں کوئی چیزنظرہی نہیں آرہی تھی. زمین کشتی کی طرح جھول رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت شروع ہو چکی ہے، سب کو اپنی اپنی پڑی تھی. عمارات گرنے سے دھول آسمان سے باتیں کر رہی تھی، ہر طرف سے چیخ وپکارسنائی دے رہی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ایسی صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
جب میں گھر کی طرف خدا کا نام لیکر پلٹا ہی تھا کہ لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی۔ اب بھی میں حیران ہوں ایسے لمحات میں نے وہ فون کیسے اٹھایا تھا؟ اب سوچتا ہوں تو بدن میں ایک سنسنی سی پھیل جاتی ہے. یہ کراچی سے رونگ نمبر سے کال تھی. فون اٹھایا تو آگے سے ایک آواز جو کانوں سے ٹکرائی یہی پوچھ رہی تھی ”سنا ہے گاؤں میں زلزلہ آیا ہے؟‘‘ میں نے ان سے کہا ہاں! بہت شدت کا زلزلہ ہے. مزید بات کرنے سے قاصر ہوں۔ فون رکھا اور باہر کی طرف بھاگ پڑا۔ باہر پہنچا، بچے رو رہے تھے، خواتین کی سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں. ہر طرف سے چیخ وپکار کا سماں تھا۔ میرے سمیت لوگ ہاتھ اٹھائے اللہ رب العالمین سے خیر و عافیت کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ یا اللہ اس ناگہانی آفت کو ختم کر دے۔
بہرحال مجھے بھائی کی فکر لاحق تھی جو دوسری بستی میں واقع سکول میں تھا. میں گھر سے پیدل اس آبادی کی جانب بھاگا جہاں بھائی تھا. دل میں عجیب وغریب خیالات آرہے تھے کیوں کہ تمام بستیاں گر چکی تھیں۔ دل میں خیال آرہا تھا کہ نجانے اپنے بھائی کو دیکھ سکوں گایا نہیں؟ پھر راستے میں اسی کے سکول کے بچے جو گھر کی طرف بھاگ رہے تھے ملے۔ انہوں نے بتایا ہمارا پورا سکول گر چکا ہے، آپ کے بھائی کو ہم نے نہیں دیکھا. یہ سنتے ہی دل کی دھڑکنوں میں مزید اضافہ ہوا، اس وقت کی اپنی کیفیت کو نوک قرطاس کرنا مشکل ہے۔
ندی پار کی تو سامنے اچانک نظر بھائی پر پڑی، دیکھ کر خوشی اور دکھ سے آنسو بارش کی طرح آنکھوں سے بہنے لگے۔ اللہ کا شکر ادا کیا اوروہ جب قریب آیا تو اس کی کیفیت پراگندہ حال تھی، کپڑوں پہ خون کے نشانات تھے، رو کر کہنے لگا ”میرے کلاس کے کافی لڑکے شاید اس دنیا میں اب نہیں رہے.‘‘ واپسی گھر کی طرف کی تو راستے میں پتہ چلا کہ خالہ کی بیٹی دیوار کے نیچے آکر خالقِ حقیقی سے جاملی۔ افراتفری کے اس عالم میں صرف چند لوگوں نے جنازہ پڑھا کیوں کہ کوئی آدمی کہیں جا ہی نہیں سکتا تھا. زوردار جھٹکے چل رہے تھے. زمین تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ روزہ تھا جیسے تیسے افطار پانی سے کیا. آبادی کے لوگ کھیتوں میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے، گھر واپسی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا. پھر اللہ کا کرنا دیکھیے ایک تو سر چھپانے کے لیے کچھ نہ تھا اوپر سے بارش بھی شروع ہو گئی. بس وہ اذیت ناک رات بھی ہمیں کبھی نہیں بھولے گی۔ صبح بنا سحری کے روزہ رکھا گیا، پھر مساجد سے علماء نے اعلانات کر دیے کہ روزہ نہ رکھیں!!! لوگوں کی لاشیں نکالنے میں مدد کریں۔ یہ ساری کیفیت میں نے صرف اپنے علاقے کی بیان کی ہے، نجانے بالاکوٹ ومظفرآباد اوردیگرعلاقوں کی ایسی اور اس سے گھمبیر لا تعداد رو دادیں ہیں، اگر سنیں تو رونگٹے اب بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں صحیح تعداد تو یاد نہیں کتنے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے، لیکن عمارات کے ملبے کی بھینٹ چڑھ کر پچاس کے قریب ہائی سکول کے بچے جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے۔ اس بھیانک زلزلہ میں سب سے زیادہ سکول کے وہ بچے متاثر ہوئے جو سکول کی چھتوں اور دیواروں کے نیچے دب چکے تھے۔ اس قیامت خیز آفت سے تقریباً 80 ہزار کے لگ بھگ افراد اپنے پیاروں سے جدا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ یہ خدا کا شکر ہے رات کو زلزلہ نہیں آیا ورنہ تعداد لاکھوں میں ہوتی۔ بالاکوٹ میں سکول کے بچوں کی اجتماعی قبریں دیکھ کردل بیٹھ ہی گیا تھا۔ کچھ عرصہ تک لوگ جب آپس میں ملتے تو ان کے حال احوال پوچھنے کا انداز ہی بدل چکا تھا۔ کہتے تھے ”کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا؟ اور ساتھ یہ بھی کہتے کہ شکر ہے آپ زندہ ہیں.‘‘ بس اللہ سے ہم آج کے دن دعا کریں کہ یا اللہ آئندہ ہم آفات کے متحمل نہیں ہو سکتے، ہمیں مزید آزمائش و امتحان سے بچا اور جنہوں نے اس دنیا سے کوچ کیا ان سب کی مغفرت فرما، آمین
حج پروازوں سے متعلق وزارت مذہبی امور اور پی آئی اے کے درمیان معاہدہ
آلودگی میںلاہور کا دنیا بھر میںدوسرا نمبر،سموگ میں مسلسل اضافہ
اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ، اقتصادی ، تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق
لاہور کا دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے دوسرا نمبر