آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماحولیات کاعالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس سال اس عالمی دن کا نعرہ ہے:
”Beat Plastic Pollution“ یعنی ’’پلاسٹک کی آلودگی کو مات دیں۔‘‘
ماحولیات کا عالمی دن منانے کا مقصد ماحول کی بہتری اورآلودگی کے خاتمے سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔ پاکستان کو بھی اس وقت شدید ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے اور زمین پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔
عالمی یوم ماحولیات کیا ہے؟
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) United Nations Environment Programme کے زیر اہتمام 1973ء سے ہر سال 5 جون کو منایا جاتا ہے۔ 1972ء میں سویڈن کے دارالحکومت، سٹاک ہوم میں منعقد ہونے والی انسانی ماحولیات پر اقوامِ متحدہ کی پہلی کانفرنس کا نعرہ تھا:
Only One Earth
یعنی ’’صرف ایک زمین‘‘
ایک عالمی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 400 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس میں سے نصف کو صرف ایک بار استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے جب کہ اس میں سے 10 فیصد سے بھی کم پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سالانہ 19 سے 23 ملین ٹن تک پلاسٹک جھیلوں، دریاؤں اور سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی بہت سی مصنوعات میں مضر صحت اجزاء ہوتے ہیں، جو ہماری صحت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرجھیلوں، دریاوں اورسمندروں میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کو اکٹھا کرکے اس کا وزن کیا جائے تو یہ دو ہزار سے زائد آئفل ٹاورز کے وزن کے برابر ہوگا۔
مائیکرو پلاسٹک انتہائی خطرناک شے ہے۔ یہ 5 ملی میٹر قطر تک پلاسٹک کے چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو خوراک، پانی اور ہوا میں باآسانی شامل ہوجاتے ہیں اور خوراک، ہوا اور پانی کے ذریعے یہ پلاسٹک ہر وقت جسم میں داخل ہو رہا ہوتا ہے. استعمال شدہ پلاسٹک کوپھینک دینے یا اس کو جلا دینے سے بھی انسانی صحت اور حیاتیات کوشدید نقصان پہنچتا ہے اورماحولیاتی نظام مکمل طور پرآلودہ ہوجاتا ہے۔ پلاسٹک سمندری گندگی کا سب سے بڑا اور مستقل حصہ ہے جو سمندری فضلہ کا کم از کم 85 فیصد بنتا ہے۔ موجودہ صدی میں گلوبل وارمنگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ کہ سن 2030 تک سالانہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو نصف کیا جائے۔ اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو فضائی آلودگی ایک دہائی کے اندر50 فیصد تک بڑھ جائے گی اور آبی ماحولیات میں بہنے والا پلاسٹک کا فضلہ تقریباً تین گنا بڑھ جائے گا۔
ماہرین کے پاس، جدید ٹیکنالوجی اور سائنس کے استعمال سے، ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے حل موجود ہیں اور بہت کچھ ہو بھی رہا ہے لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے مختلف حکومتوں، اداروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی جانب سے اقدامات کو تیز کرنے کے لیے عوامی اور سیاسی سطح پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق گرین ہاؤسزگیسوں کے اخراج کی وجہ سے درجہ حرارت میں بتدریج اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب پانی کی آلودگی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے. ماہرین کے مطابق 80 فیصد بیماریوں کا تعلق آلودہ پانی کے استعمال سے ہوتا ہے، لہٰذا خوش گوار اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ماحولیاتی مسائل پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ اس وقت پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے جہاں گزشتہ ایک سوسال کے دوران درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی مسلسل کٹائی بھی ہے۔
حج پروازوں سے متعلق وزارت مذہبی امور اور پی آئی اے کے درمیان معاہدہ
آلودگی میںلاہور کا دنیا بھر میںدوسرا نمبر،سموگ میں مسلسل اضافہ
اسلام آباد اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ، اقتصادی ، تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق
لاہور کا دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے دوسرا نمبر