انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے توزمانہ قدیم سے اب تک باہمی انسانی رشتوں کومعاشرت میں انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے اور اب بھی ہے۔ خاندان اورمعاشرے میں رشتے تو متعدد ہیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ رشتوں کے بغیر انسانیت ہی ادھوری ہے. یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ رشتے صرف خاندانی یا خونی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی ہوتے ہیں جس میں دوستی‘ استاد شاگرد کا رشتہ و دیگر اہم ہیں۔ یہاں ہم استاد و شاگرد کے باہم رشتے کی اہمیت آپ کی نذر کررہے ہیں کہ اس کو معاشرے میں کیا مقام حاصل ہے؟ گزشتہ دنوں سماجی رابطہ کی ایک مقبول ترین سائٹ ”فیس بک‘‘ پر ایک یادداشت (میموری) تین برس پیچھے لے گئی. اس سائٹ پر اکثر زندگی کی وہ خوش گوار یادیں ہوتی ہیں جنہیں دنیا کی تمام دولت کے بدلے میں بھی انسان بھولنا پسند نہیں کرسکتا۔ ”استاد شاگرد‘‘ رشتے پر لکھنے سے قبل عرض کرتے چلیں کہ یہ جملہ معروف ہے کہ ”یادِ ماضی عذاب ہے یارب۔‘‘ تاہم یہ بات سچ ہے کہ یادوں کی دو اقسام ہوتی ہیں، یعنی اچھی اور بُری۔ انسان کے لیے بُری یادوں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا ہے جب کہ کوئی بھی فرد اچھی یادوں کو بھولنا پسند نہیں کرتا۔
”استاد شاگرد‘‘ کے رشتے پر بات کرتے ہوئے اپنی آراء عرض ہیں کہ ویسے تو مجھ سے کئی بچوں نے حفظ قرآن مکمل کیا ہے، لیکن ان سب میں سے ایک وہ بچہ جس نے مجھے ماضی کی یادوں میں دھکیلا وہ 2017 ء میں جب میرے پاس پڑھنے آیا تو اس نے سورہ فاتحہ سے حفظ قرآن کی ابتدا کی. یہ ترک بچہ تھا جو ماشاء اللہ نہایت ذہین، ہونہاراور باادب طالبعلم تھا. ایک عرصہ بعد گزشتہ دنوں اس کی وہ یادداشت (میموری) ”فیس بک“ پر ابھری جب اس نے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا تھا. جس وقت اس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تو اس وقت کے کچھ لمحات اس کے والد نے کیمرے میں محفوظ کرکے ”فیس بک‘‘ پر اپ لوڈ کر دیے تھے۔ شاگردوں کے ساتھ جو استاد کی محبت ہوتی ہے وہ بھی دیگر رشتوں کی طرح انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ میرا جب کوئی بھی شاگرد کوئی کارنامہ سرانجام دیتا یا زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتا ہے، اس کے متعلق کسی کو بتاتے وقت یا اس کا تعارف کراتے وقت ایک دلی فرحت کا احساس ہوتا ہے کہ اس شاگرد نے مجھ سے علم حاصل کیا۔ ظاہر سی بات ہے میری طرح اور بھی بہت سے اساتذہ ہوں گے جن کو اپنے شاگردوں پر بہت فخر ہوتا ہوگا، وہ بھی اپنے ہونہار شاگردوں کو دیکھ کر یا ان کے متعلق سن کر، کسی کو کہتے ہوں گے کہ فلاں عالم، مفتی، شیخ الحدیث، ڈاکٹر‘ کیپٹن‘ کامیاب بزنس مین، کسی بھی شعبے کا سپیشلسٹ، سائنس دان و دیگراہم معاشرتی مقام کے حامل وغیرہ میرے شاگرد رہے ہیں۔
یہ تحریرنذرِ قلم کرتے وقت عرض کرتا چلوں کہ مجھے بھی اپنے اساتذہ سے ملاقات کرتے وقت بہت خوشی محسوس ہوتا ہے اور یہ خوشی ایسی ہوتی ہے جس کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ تاریخ کے اگراوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں اساتذہ کو والدین کے بعد سب سے قابلِ احترام سمجھا جاتا رہا ہے اور ہمیشہ ان کی اہم حیثیت رہی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جن شاگردوں نے بھی اساتذہ، خواہ ان کا تعلق سکولوں، کالجوں‘ یونیورسٹیوں‘ مدارس یا دیگر شعبہ جات سے ہو، محبت واحترام اور خدمت کا رویہ روا رکھا تو وہ شاگرد ہمیشہ کامیاب وکامران رہے۔
آج کل کے دور جدید میں جب ٹیکنالوجی و دیگر علوم و شعبوں نے ہر جگہ عروج پکڑا ہوا ہے، زمانہ اپنی چال پہ چال، چل و بدل رہا ہے اور نئی روایات جنم لے رہی ہیں، الغرض ہر چیز تبدیلی و ارتقاء کی جانب رواں دواں ہے‘ شعبوں اور چیزوں میں انقلاب و تبدیلیاں آرہی ہیں. اس صورتِ حال میں بھی نہیں بدلا تو وہ استاد اور شاگرد کا انوکھا اور خوب صورت رشتہ ہے۔ صدیاں بیت گئیں‘ برسوں گزر گئے لیکن وقت کی کروٹوں کی دھول استاد وشاگرد کے باہمی بے لوث رشتے و محبت پر ذرہ برابر اثر انداز نہ ہوسکی اور نہ ہی اس کو کم کر سکی۔
آپ کے مشاہدے میں یہ بات رہی ہوگی کہ ہمارے معاشرے میں تاحال سکولوں‘ یونیورسٹیوں، کالجوں اور مدارس وغیرہ میں استاد کو عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے اور ادب و احترام سے اساتذہ کو سلام کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ دنیاوی تعلیمی اداروں کی نسبت مدارس کے اساتذہ کو شاگرد بہت محبت و احترام دیتے ہیں. ہمارے مدارس میں تو جہاں اساتذہ کی جگہ متعین ومقرر ہوتی ہے، طلباء اس جگہ اور مقام پر احتراماً بیٹھنا تو دُور، پاؤں تک رکھنا گوارانہیں کرتے۔
روزِ اوّل سے دیکھا جائے تو استاد کا ایک اعلیٰ مقام ہے. دنیائے علم و تاریخ نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کواپنے اپنے طور پہ بیان کیا ہے لیکن دینِ اسلام نے انسانوں کے لیے اساتذہ کے بلند مقام و مرتبے کوایسے اجاگر کیا ہے کہ کسی کمی کا کوئی شائبہ ہی نہیں بچا۔ یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ ایسے ہی ایک قول خود آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرما کر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اس رہتی دنیا میں آپ کو جو کچھ نظر آ رہا ہے، جو ترقیاتی منصوبے، ٹیکنالوجی کی بہتات، کمپیوٹر و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کامیابیاں اور سائنس کے جدید معرکے، ان سب پہ گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو ضرور اس کے موجدین کسی نہ کسی استاد سے فیض حاصل کرکے منظرِ عام پر آئے ہوں گے اور ان عوامل کے پیچھے یقینی طور پر اساتذہ کا ہاتھ ہے۔ ماننے کی بات ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا ایسا ہی ہے جیسا کے والدین کی تعظیم اور اللہ کے فرمان کی وجہ سے ہمارے اوپر جس اندازسے والدین کی تعظیم ضروری ہے، اسی طرح استاد کا درجہ بھی اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بقول والدین کا سا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ ”میں تمہارے لیے والد کے درجے میں ہوں. تم کو ہر چیز سکھاتا ہوں۔‘‘
شیخ ذوالفقار نقشبندی مدظلہ کی کتاب ”با ادب، با نصیب‘‘ میں انہوں نے فقہاء کے اقوال درج فرمائے ہیں. ان کو پڑھ کر لگتا ہے کہ واقعی ان کی کامیابیوں کے پیچھے اساتذہ کا ادب و احترام کارفرما ہے. آپ فرماتے ہیں کہ‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ ”آپ کے دل میں کوئی خواہش ہے؟‘‘ جواباًً انہوں نے فرمایا ”میرا جی چاہتا ہے کہ استاد علی بن مدینیؒ حیات ہوتے اور میں جا کر ان کی صحبت اختیار کرتا۔‘‘ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ”میں ادب کی وجہ سے کتاب کے ورق آہستہ الٹتا تھا کہ میرے استاد کو اس کی آواز سنائی نہ دے۔‘‘
”تعلیم المتعلم‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل ہے: ”میں اس شخص کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا‘ اگر وہ چاہے مجھے بیچ دے، اگر چاہے تو آزاد کردے اور اگر چاہے تو غلام بنالے۔‘‘
میں سمجھتا ہوں آج اگر کوئی شخص کامیابی کی سیڑھیوں کو عبور کررہا ہے تو اس کی ایک وجہ استاد کا احترام اور تکریم بھی ہے. جو شخص استاد کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتا تو اس کی ناکامی کی ایک وجہ، بے ادبی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ استاد کی بے ادبی ہو جائے تو معافی مانگنے میں بالکل دیر نہ کی جائے۔
وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ، اقتصادی ، تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق
لاہور کا دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے اعتبار سے دوسرا نمبر
پاکستان کی غزہ میں یواین کے ادارے کو امدادی کام سے روکنے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت
اوورسیز پاکستانیوں کی پراپرٹی کیلئے خصوصی عدالت کے قیام کا بل منظور
چودھری پرویزالہٰی کوٹ لکھپت جیل سے رہا