جب سے ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوا ہے تو دل چاہ رہا تھا کہ ہمارے پیارے محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت طیبہ پہ قلم اٹھا کر اپنا نام بھی سیرت کے لکھاریوں کی صف میں شامل کروں۔
سوچ سوچ کر پریشان حال تھا کہ شروع کہاں سے کروں۔ پھر خیال آتا کہ شروع تو کر لو گے اظہار! لیکن ختم کیسے کرو گے؟ تو پھر ہاتھ رک جاتا کہ اس ذات کے اوپر اگر لکھنا شروع کیا جائے تو ساری سیاہیاں ختم ہو جائیں گی، سارے قلم گھِس جائیں گے، انگلیاں لکھتے لکھتے تھک کر جواب دے دیں گی لیکن آقائے نامدارمحمد مدنی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت اور زندگی کے چند لمحات کو بھی نوک قرطاس نہ لا پاؤں گا کیوں کہ نبی آخرالزماں کی شان ہی ایسی نرالی ہے جس کی ذات مقدس کے لیے ہمارے پاس لفظوں کا ذخیرہ دور دور تک نہیں۔
”ہم کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا‘‘ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ کی سیرت پر قلم اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ لیکن بہرحال میں سیرت المصطفی، احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ لکھنے کا حق تو ادا نہیں کر سکتا لیکن ”بلغو عنی ولو ایۃ‘‘ کے تحت اپنے نبی کی کچھ باتیں زیر قلم لاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ کل جب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین کا نام پکارا جائے تو شاید ہم پر بھی اس بہانے رحمت کی نگاہ پڑ جائے۔
اگر میں یہ کہوں تو بے جاہ نہ ہوگا کہ اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے چار پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں:
پیدائش سے پہلے، نبوت سے پہلے، مکی زندگی کا اور مدنی زندگی۔
پیدائش سے پہلے:
بات اگرنسب کی کی جائے تو اللہ کے نبی کا چناؤ ایسے عمدہ ونفیس و شریف خاندان سے ہوا کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم باعتبار حسب ونسب سب سےافضل واشرف تھے، اللہ کے نبی نے ”لقد جاءکم رسول من انفسکم‘‘ کی آیت تلاوت فرمانےکے بعد خود فرمایاکہ ”میں باعتبار حسب ونسب کے تم سب سے افضل اور بہتر ہوں۔ میرے آباء واجداد میں حضرت آدم سے لے کر اب تک کہیں زنا نہیں، سب نکاح ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ تک سلسلہ نسب میں جتنی بھی امہات واجداد آئے، تمام کے تمام سبحان اللہ محصنین اور محصنات تھے یعنی سب کے سب پاک دامن۔ واہ قربان جائیں اس ذات پہ جس کے قبض قدرت میں ہماری جان ہے، نے ہمارے آخری نبی کو ایسے خاندان سے چنا، تاکہ کوئی ان کے نسب مبارک و مطہرپہ لب کشائی کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ یہی وجہ تھی کہ کفارمکہ بھی اس نسب کی عظمت کے انکاری نہ تھے. ہرقل کے دربار میں حضرت سفیان رضی اللہ عنہ جو اس وقت مسلمان نہ تھے، تو بڑے دشمنوں میں ان کا شمار ہوتا تھا، انہوں نے بھی کہا تھا کہ ”محمد ہم میں بڑے اعلٰی خاندان سے ہیں.‘‘ اگر کوئی عیب ہوتا تو وہ بنا بیان کیے کیسے رہ پاتے اورشاہ ہرقل کی خوشنودی حاصل کرنے کے اس موقع کو کہاں ضائع ہونے دیتے۔
اللہ کے نبی آخرالزمان کی پیدائش مبارک ابھی ہوئی ہی نہیں تھی كہ ان کے خاندان پر برکات کا نزول شروع ہو چکا تھا۔ والد کے نام مبارک کوہی دیکھ لیں، جو ایسا نام ہے کہ اللہ سبحانہ کی ذات مقدس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب دونام جن میں سے ایک عبداللہ دوسرا عبدالرحمان ہے۔ اس نام سے قرآن کی آیت کی طرف اشارہ ہوتا ہے، جہاں اللہ سبحانہ ارشاد فرماتے ہیں: ”قل ادع اللہ اوادعوالرحمن‘‘ حضرت کاندھلوی رح اپنی کتاب سیرت المصطفیﷺ میں رقم طراز ہیں کہ ”بعید نہیں اللہ کی ذات نے حضرت عبدالمطلب کے دل میں خاص طور پہ من جانب اللہ القاء کیا گیا ہو کہ اس فرزند ارجمند کے نام تو ایسا رکھیو جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
اللہ سبحانہ نے قریش کی کم وپیش پچاس دن پہلےمدد ونصرت کی. واقعہ فیل کے موقع پہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سرور کائنات تشریف لانے والے ہیں۔ خانہ کعبہ کا متولی قریش تھا اور اللہ نے اس قبیلے میں اپنے نبی کو لانا تھا اور اس خاندان کی حفاظت بوجہ نبی آخرالزمانﷺ کے فرمائی ورنہ قریش مشرک اور بت پرست تھے۔
ہمارے پیارے خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہونے کے وقت اللہ سبحانہ نے کچھ معجزات کو ظاہر فرمایا۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوہ میں لکھتے ہیں ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں آیات و کرامات بے شمار ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا اور رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری ہو گیا حالاں کہ اس سے قبل اسے منقطع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا اور فارسیوں کا آتش کدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا.‘‘
احسن المواعظ میں ایک عجیب وغریب واقعہ لکھا ہے کہ یمن میں ایک عامر نامی اپنے بت خانے میں بیٹھا تھا تو جب سرکار دو جہاں کی ولادت باسعادت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور مشرق سے مغرب، جنوب سے شمال زمین سے آسمان تک محیط تھا۔ عامر حیران تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے. یکایک عامر کا بت اوندھاگرا اور یہ کلام کیا: ”جہاں میں تشریف لائے وہ نبی جن کا سینکڑوں برس سے انتظار تھا، جن سے درخت اور پتھر کلام کریں گے جن کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگا.‘‘ عامر نے اپنی زوجہ سے کہا تم نے سنا جو میں سنتا ہوں؟ بی بی نے کہا ”ہاں عامر ذرا یہ تو پوچھ لو کہ وہ کہاں پیدا ہوں گے اور کیا نام ہوگا.‘‘ عامر نے پوچھا ”اے عاتف غیبی اس مبارک فرزند کا نام کیا ہے؟‘‘ بت نے کہا کہ ”آپ کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔‘‘
نبوت سے پہلے:
سرکار دوحہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیدائش عام بچوں کی پیدائش کی طرح نہ تھی۔ امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اسحاق بن عبداللہ حضرت آمنہ سے راوی ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیدا ہوئے تو نہایت نظیف تھے اور پاک صاف تھے. جسم اطہر پر کسی قسم کی آلائش اور گندگی نہ تھی۔‘‘
جب نام کی باری آئی تو سبحان اللہ سیدہ آمنہ کو رویا صالحہ ہوئی کہ تم سید الامم کی حاملہ ہو اس کا نام احمد رکھنا (صلی اللہ علیہ وسلم)۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دادا حضرت عبد المطلب نے بھی ایک عجیب وغریب خواب دیکھا کہ ان کی پشت سے ایک زنجیر ظاہر ہوئی ہے، جس کا ایک سرا آسمان اور ایک زمین کے ساتھ، ایک مشرق اور ایک مغرب کی طرف پھیلا ہوا ہے. پھر اچانک وہ زنجیر ایک درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہےجس کے ہر پتہ پہ ایسا نور ہے جو ستر درجہ سورج کی روشنی سے کہیں زائد منور ہے۔ قریش میں سے کچھ لوگ اس کی شاخیں پکڑتے ہیں اور کچھ قریشی شاخوں کو کاٹنے کےارادہ میں لگے ہیں۔ اسی اثنا میں ان کو ایک حسین و جمیل خوب صورت جوان ان کو کاٹنے سے روکتا ہے۔ جب خواب کی تعبیر بتانے والوں سے پوچھا آخریہ کیا ماجرہ ہے؟ تو انہوں نے عبدالمطلب سے کہا کہ ”آپ کی نسل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا جس کی اتباع مشرق سے مغرب تک لوگ کریں گے اور آسمان سے لے کر زمین تک اس کی حمدوثنا ہوگی۔‘‘ اسی وجہ سے عبد المطلب نے آخری ٹکڑے کو لے کر نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھ دیا۔ جیسا کہ آپ کے والد ماجد کا نام ”عبداللہ‘‘ رکھنا ایک الہامی تھا اسی طرح ہمارے آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی اللہ سبحانہ کی طرف سے الہامی تھا۔
جب اسم مبارک اللہ سبحانہ کی طرف سے ایسا چنا گیا جس کے ایک معنی ”جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو‘‘ جس کے محاسن اور کمالات محبت اور عظمت کے ساتھ کثرت سے بار بار بیان کیےگئےہوں۔ واقعی زراغور فرمائیں! اس کائنات میں اگر اللہ سبحانہ کی ذات کے بعد جس ہستی کی اگرتعریف کی گئی ہے تو وہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔
نام مبارک کے بعد جب باری آئی آقا علیہ صلاۃ وسلام کے دودھ پینے کی۔ اللہ سبحانہ نے اس کا بھی انتظام فرما دیا۔ سیرت کی کتاب دلائل النبوت میں حضرت حلیمہ سعدیہ کا واقعہ تحریر ہے کہ جس سال آقائے دو جہاں پیدا ہوئے بڑا سخت ترین سال تھا، قحط سالی عروج پہ تھی۔ حلیمہ سعدیہ کے گھر فاقوں کی نوبت تھی، بھوک اور افلاس کی وجہ سے بدن بہت نخیف ہو چکا تھا۔ چلنا دشوار تھا۔ ایک رات وہ سوئی ہوئیں تھی، خواب میں دیکھتی ہیں کہ اچانک ایک بزرگ شخص نمودار ہوئے اور ان کو جگا کر اپنے ساتھ ایک نہر پہ لے گئے، ایسی نہر جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا تھا. اس بزرگ نے فرمایا کہ ”اے حلیمہ اس پانی کو پیو اور حرم چلی جاؤ. وہاں آپ کے لیے اللہ نے ایک بہت بڑی دولت رکھی ہے۔‘‘ حلیمہ کی تمام تکالیف اس پانی پینے کے بعد ختم ہو گئیں. دوبارہ ایک نئی زندگی کی امید جاگ گئی۔ صبح بیدار ہوئیں، گھر والوں کو بغیربتائے حرم کی طرف نکل پڑیں۔حضرت حلیمہ کو کیا معلوم تھا کہ میں جس دولت کو لینے جا رہی ہوں وہ کون شخصیت ہے. اُن کو کیا معلوم تھا کہ میں جس دولت کو گود لوں گی، وہ ختم الرسل ہوگا. اُن کو کیا معلوم تھا کہ وہ آگے چل کر امام الانبیاء بنیں گے۔ اُن کو کیا معلوم تھا کہ مکہ میں ان کا ایسی شخصیت انتظار کر رہی تھی جس کی خاطر اس کائنات کو اللہ سبحانہ نے وجود بخشا، دنیا پہ مہربانی فرما کر ایک ایسی عظیم شخصیت عنایت فرمائی جس کی کوئی نظیر نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہو سکے گی۔
سیرت دان لکھتے ہیں کہ جس نہر سے خواب میں حلیمہ کو پانی پلایا تھا وہ جنت کی نہر الحیوۃ کہلاتی ہے۔ اس کی ادنی صفت یہ ہے مُردوں کو زندہ کرنا۔ یہ وہی نہر ہے جب رحمت العالمین، شفیع المذنبین اللہ کی ذات سےسفارش کرنے کے بعد اپنی امت کے گناہگاروں کو جہنم سے نکالیں گے تو ان سب کو اس نہرمیں ڈالنے کا حکم ہوگا۔ تو وہ سب کالے سوختے چودھویں رات کے چاند کی صورت روشن ہو کر نہر سے برآمد ہوں گے۔
حلیمہ کو یہ پانی پلانےمیں حکمت یہ تھی کہ عنقریب ان کے جسم سے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم دودھ نوش فرمائیں گے تو اس دودھ کے پینے کے بعد آپ علیہ سلام میں مُردہ دلوں کو زندہ کرنے کا اثر پیدا ہو جائے۔ اللہ اکبر، جب حلیمہ اپنی لاغر اونٹنی پہ مکہ دیر سے پہنچییں تو دوسری دائیاں اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کے شیر خوار بچے لے چکیں، تو حضور چوں کہ یتیم تھے اس لیے ان کو کسی نے نہ لیا۔ وہ بدقسمت سمجھ رہی تھیں کہ ہمیں دودھ دینے کے بدلہ میں اس یتیم کے گھر سے کیا ملے گا۔ ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ ایسی شخصیت ہے کہ اس پہ کائنات کی ساری دولت بھی قربان کر دی جائے تو بھی کم ہے۔ حلیمہ پھرتی رہیں جب کوئی بچہ نہ ملا تو آخر عبدالمطلب کے گھر آئیں، پوچھا ”کوئی بچہ ہو تو دے دیں۔‘‘ عبد المطلب نے کہا بچہ تو ہے لیکن سب دائیوں نے اس لیے چھوڑا کہ یہ یتیم ہے۔ قربان جاؤں حضرتِ حلیمہ نے یہ بخوشی قبول کرلیا۔ دنیا کی دولت کو لات مارکر لازوال دولت کو لے لیا۔ جب دودھ پلانے کے لیے آقا کو چھاتی پیش کی، جو بھوک کی وجہ سے خشک تھی، ایک دم سے حضور کی برکت سے ددوھ ٹپکنے لگا۔ آقا علیہ سلام نےایک طرف سے پینے کے بعد دوسری طرف کی چھاتی کو چھوا تک نہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کی طرف سے الہام ہوا کہ دوسرے حلیمہ کے حقیقی بچے کا حصہ ہے۔ اس کے بعد نبی آخرالزمان نے کبھی بھی بائیں جانب دودھ نوش نہیں فرمایا۔
آقا علیہ السلام کی حلیمہ سعدیہ کے گھر آمد پر برکتوں کے نزول شروع ہوگئے، فاقے ختم ہوگئے، پریشانیاں ختم ہوگئیں۔ بہرحال اللہ کے نبی کی زندگی کی بہاریں بڑھنا شروع ہوئیں، بچپن ہی سے اللہ سبحانہ کی طرف تربیت شروع ہو چکی تھی۔ شق صدر کے زریعہ سے وہ تمام گناہ کے مادے جو ایک عام آدمی کے دل میں ہوتے ہیں، سارے کے سارے نکال دیے گئے۔ نبوت کے لیے تیاریاں شروع تھیں۔ بچپن ہی سے صادق و امین۔ کبھی زندگی میں کسی کو تکلیف نہ دی، نہ ہی کسی سے بدلہ کی خواہش رکھی اور نہ ہی کسی کا حق مارا۔ ان کے اخلاق کے اپنے تو کیا بیگانے بھی فریفتہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب خانہ کعبہ کو تعمیر کررہے تھے، جب حجر اسود کے رکھنے کا موقع آیا، تو ہر قبیلہ یہ چاہ رہا تھا کہ یہ سعادت مجھے ہی ملے کہ اس کو جگہ مخصوص مقام پہ رکھوں. نوبت لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت تک پہنچ چکی تھی۔ بات جب نہ بنی تو رات کو یہ فیصلہ ہوا کہ جو کل صبح سب سے پہلے حرم آئے گا وہی حجراسود کورکھےگا۔ صبح جب لوگ آئے تو کیا دیکھ رہے ہیں، آقائے دو جہاں کو پایا توتمام قبیلےنے حضور کو دیکھ کر بخوشی کہہ دیا ”واقعی محمد (ﷺ) سے زیادہ کوئی بھی اس کے رکھنے کا مستحق نہیں.‘‘ کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم عمدہ، اخلاق کریمانہ کا پیکرمشہور تھے۔ لیکن قربان اپنے محسن انسانیت پہ کہ انہوں نے اکیلے اس خدمت کو انجام نہ دیا بلکہ سب کو اس سعادت میں شریک کیا، ایک چادر منگوا کر تمام قبائل کے سرداران کو بلایا. چادر کا ایک ایک کونہ پکڑایا اور خود دستِ مبارک سے اس کو مخصوص جگہ پہ رکھ دیا۔
آقا علیہ سلام کی زندگی ایک نمونہ تھی نبوت سے پہلے اپنے کردارسے لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ اسی لیے اللہ نے نبوت کی نعمت عنایت فرمانے کے بعد حکم فرمایا کہ اب علی الاعلان دعوی نبوت فرمائیں!
۔نبوت ملنے کے بعد کے مصائب وآلام:
جیسا کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا خمیر ہی اللہ سبحانہ نے ایسا بنایا ہوتا ہے کہ ابتدا ہی سے کفر وشرک سے پاک ہوتا ہے. آقائے نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم تمام قسم کے منکرات اور فحشاء سے پاک اور منزہ تھے. تمام جاہلیت کی رسومات سے متنفر اور بیزار تھے۔ بتوں کی پرستش سےسخت نفرت تھی۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ قسم اٹھا کر فرمایا کہ ”خدا کی قسم میں کبھی لات کی پرستش نہ کروں گا۔ خدا کی قسم میں کبھی عزیٰ کی پرستش نہ کروں گا۔‘‘
تمام رزائلِ دنیا سے اپنے آپ کو ہمیشہ جدا رکھا، کبھی شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ کبھی قمار کا نہ سوچا۔ چنانچہ جب عمر مبارک چالیس سال کو پہنچی۔ایک دن آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم غارحرا میں عبادت فرما رہے تھے تو اس وقت اللہ سبحانہ کی طرف سے جبرائیل علیہ سلام کو بھیجا کہ جاؤ اب محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس جس مشن کے لیے ان کو تیار کیا تھا اس کا وقت آنے کو ہے۔
یکایک جبرائیل امین غار کےاندر نبوت کا پروانہ لے کر داخل ہوئے. آپ علیہ صلاۃ وسلام کو سلام کیا، پھر اگلا جملہ فرمایا۔ اقراء پڑھیے آپ نے فرمایا: ”ماانا بقاری۔‘‘ میں پڑھ نہیں سکتا۔ تو انہوں نے اللہ کے نبی کوپکڑ کر شدت سے دبایا تواللہ کے نبی کو مشقت محسوس ہوئی. مفسرین فرماتے کہ اللہ کے نبی کا نہ پڑھنا ایسا تھا کہ وہ فرمارہے تھے کہ میں وحی کی ہیبت اور دہشت کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتا. یہ مطلب نہیں کہ میں ”اُمّی‘‘ یعنی پڑھا ہوا نہیں ہوں، خیر جب دو بار اصرار کرنے پر دوبارہ ان کو پکڑا، شدت سے دبایا اورپھر فرمایا ”اقراء بسم ربک الذی خلق‘‘ کہ اپنے پروردگار کے نام کی مدد کےساتھ پڑھیے!
بعد آزاں گھر تشریف لائے سارا واقعہ حضرت خدیجہ سے بیان کیا، بدن مبارک پہ کپکی تاری تھی کہ اس طرح کی انوکھی چیزکا سامنا نہیں ہوا تھا. ایسی صورتِ حال میں پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار ہونا بعید نہیں۔ اللہ کے نبی نے فرمایا مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ”آپ کو مبارک ہو! قسم ہے اللہ کی ذات کی کہ وہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی والے ہیں، ناداروں کی فکر کرنے والے، دوسروں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں.‘‘ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ آپ کبھی کسی فاحشہ کے پاس نہیں بھٹکے۔ خلاصہ کلام یہ ہے آپ تمام پاکیزہ صفات والے ہیں، عمدہ اخلاق کے پیکرہیں۔ ایسا شخص نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں رسوا ہو سکتا ہے۔ آپ رسولِ برحق ہیں۔ تسلی دینے کے بعد روایات میں ہے کہ سیدہ خدیجہ سب سے پہلے اللہ کے نبی پہ ایمان لے آئیں۔ ان کے بعد اہلِ بیت نے دین محمد قبول فرمایا، پھر آپ علیہ سلام نے دوستوں اور محبین کو دعوت الی اللہ دینا شروع کی، ابوبکر صدیق (ر) جن کا شماردوستوں میں سے تھا، بلا تا مل و تدبر اسلام قبول کیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سال تک مخفی طور پہ دعوت الی اللہ دیتے رہے۔ پھر اللہ سبحانہ نے حکم فرمایا کہ اب علی الاعلان اور صاف صاف دعوت الی رب دیجیے. مشرکین کی پراوہ مت کیجیے! اور ”وانذرعشیرتک الاقربین‘‘ اور سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو کفر اور شرک سے ڈرائیے! چنانچہ اللہ کے نبیﷺ نے اپنے خاندان کے چالیس لوگوں کو کھانے پہ بلایا، ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ کھانے سے فراغت پہ آقاعلیہ سلام نے جب ان کو دعوت الی اللہ دینا شروع کی تو رشتہ داروں میں سے ابولہب نے یہاں سےمخالفت شروع کردی۔ ان سب کی مخالفت کے باوجود، آقاءعلیہ السلام دین کی اشاعت کو پھیلانے سے پیچھے نہ ہٹے. چنانچہ آپﷺ نے کوہ صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کرتمام قریش کے قبائل کو بنام پکار اوراکٹھا فرمایا اوران سے گویا ہوئے۔ ”اگر میں آپ کو کہوں کہ اس پہاڑی کے عقب سے ایک لشکر آپ پہ حملہ آور ہونے والا ہے، کیا آپ تصدیق کروگے؟‘‘ سب نے بیک زبان ہو کر کہا: ”بے شک ہم آپ میں صدق اورسچائی کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہے۔‘‘ اورمزید مخاطب ہو کر فرمایا ”لبثت فیکم عمرا۔ ھل وجدتمونی صادقا ام کاذبا؟‘‘ کہ میں چالیس سال تک آپ کے درمیان رہا، آپ نے مجھ کو کیسا پایا؟‘‘ سب نے جواب دیا ”اماوجدنا فیک الا صدقا ہم نے آپ کو سراپا صدق پایا ہے۔‘‘ تو پھر اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ”لالہ الا اللہ پڑھ لو، کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ سنتے ہی سب سے پہلا پتھر آقا کی طرف جس نے اچھالا وہ کوئی غیر نہیں تھا، آپﷺ کا چچا ابولہب تھا، کہنے لگا: ”تبا لک یا محمد الہذا ماجمعتنا۔‘‘ ہلاکت ہو محمد (العیاذباللہ) آپ پر، ہمیں اس لیے آپ نے جمع کیا تھا؟
اس کے بعد مخالفت کا بازار گرم ہو گیا. رشتے ناطے ٹوٹ گئے، اپنے بیگانے ہو گئے، ہمارے محبوب نبیﷺ کا امتحان شروع ہو گیا، تکالیف، مصائب اورآلام کی کوئی کثر باقی نہ رہی۔ جو لوگ صادق امین کا لقب دیا کرتے تھے، دشمن بن گئے۔ ہر ایک نے اپنے حصہ کی تکلیف دینے میں کثر نہ چھوڑی۔ کوئی راستے میں کانٹے بچھاتا یہاں تک کہ کسی نے اوجڑی تک پھینکی۔ آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کے صحابہ (ر) پہ ظلم کے پہاڑ ڈہائے گئے۔ طائف کی وادیوں میں پتھروں کی بارش کی گئی۔ تمام لوگوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے تین سال شعب ابی طالب میں گزارے۔ ظلم و بربریت کے کا کوئی نسخہ ایسا نہ تھا جو کفار نے نہ آزمایا ہو۔ دنیا میں اگر مصائب اور تکالیف کا سامنا ہمارے نبیﷺ نے کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ مصائب وآلام کی لمبی فہرست ہے جو کہ نوکِ قلم پر لانا مشکل ہے۔ تیرہ سال مکہ کے بہت مشکلوں سے گزرے، ہم سب قربان جائیں اپنے آقا پہ، کہ کبھی بھی اللہ سے شکوہ نہ کیا بلکہ اپنے دشمنوں کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
بلآخر کفارنے جب دیکھا کہان کی جانب سے دی جانے والی اذیتوں کے باوجود دن بدن لوگ دین میں داخل ہو رہے ہیں، روز بروز دینِ محمد کی آبیاری ہو رہی ہے تو انہوں نے متفقہ طور پہ ستانے کا پروگرام بنایا تاکہ یہ لوگ دین سے پھر جائیں اور محمدﷺ کا نام ہی مٹ جائے۔ یہاں تک کہ نعوذبااللہ آقائے نامدار محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو پھر اللہ سبحانہ نے جبرائیل (ع) کو حکمِ ربانی دے کر بھیجا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کی جائے۔ مدینہ میں چوں کہ دینِ محمد کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور ایک سنہری دور آقا علیہ سلام کا منتظر تھا۔ اللہ کی مدد و نصرت سے اللہ کے نبیﷺ مدینہ صحیح سلامت پہنچ گئے۔
ہجرت کے بعد اللہ سبحانہ نے کفار سے اپنے نبیﷺ کی جان کی حفاظت کی. آہستہ آہستہ دین کی ترویج شروع ہوگئی. اُمت محمدیہ صلی علیہ وآلہ سلم نے ہجرت کے بعد سیاسی اور سماجی زاویہ سے خود کو مستحکم کیا. مدینے کے اکثر افراد بہت سی دینی اقدار اور انفرادی اور اجتماعی اخلاق سے نا آشنا تھے لیکن سرکارِدوجہاںﷺ کی آمد سے مدینہ کی فضا میں علم و توحید کا پرچم آب وتاب کے ساتھ لہرا نے لگا اور اہلِ مدینہ ایک نئے اسلامی معاشرے اور اخلاق و آداب سے آشنا ہو گئے۔ دس سال ایک شاندار دور گزرا، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور یہ دور ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جب فتح مکہ ہوا، تمام کفار پریشان تھے کہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ سلم) ہمارے ساتھ کیا معاملہ کریں گے؟ لیکن تمام اپنے مصائب، تکالیف اوراذیتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپﷺ نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ عام معافی کے اعلان نے دشمنوں پر ایسے اثرات ڈالے کہ وہی خون کے پیاسے دین کے بدترین دشمن تمام کے تمام آپﷺ پر جان چھڑکنے لگے۔ ایسے پاک باز، خدا ترس اور ایسے عاشق رسولﷺ بن گئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی- یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا اخلاق کریمانہ تھا- کیوں کہ رحمت کا لقب اس کائنات کے بنانے والے سے جو ملا تھا۔ آج ہمارے لیے یہ کہنا تو بہت آسان ہے ہم ایمان والے ہیں لیکن اس کے پیچھے جو ہمارے نبی پاکﷺ، اہل بیت اور صحابہ (ر) کی قربانیاں ہیں وہ ہمیں کبھی نہیں بھولنی چاہئیں۔ اپنے آپ کو اگر سچا عاشق رسولﷺ بنانا ہے تو ان کے لائے ہوئے دین کی اتباع ضروری ہے۔ اللہ ہم سب کو سچا عاشق رسولﷺ بنائے اورآپﷺ کی سیرت کو اپنانے کی توفیق دے۔
ویسے تو تمام سیرت کا احاطہ کرنا ایک ناممکن سی بات ہے، بس اتنا کہوں گا کہ شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
صلی اللہ علی محمد و علی آلہ واصحابہ وسلم