• یہ ملک ہے تو ہم ہیں ،ملک نہیں تو ہم بھی نہیں
• میری کامیابی کا سہرا اوورسیز پاکستانیوں کے سر ہے
• ضمیر مطمئن ہے، کبھی جھوٹ کا سہارا لیا نہ کسی کو دھوکہ دیا
• نوجوان سوشل میڈیا سے استفادہ کر کے روزگار کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں
• حق پر کار بند رہتے ہوئے دیانت داری سے کام کیا جائے تو صحافت سے بہتر کوئی پیشہ نہیں
سوشل میڈیا کے ذریعے مثبت صحافت کو فروغ دینے والے سینئر صحافی، محمد بلال احمد سے ’’مدمقابل‘‘ کی خصوصی ملاقات
انٹرویو: راشد منصور راشدؔ
مدِ مقابل کے انٹرویو پینل میں ان سے ملیے یہ ہیں محمد بلال احمد۔ خاموش طبیعت لیکن نہایت خوش مزاج، ملنسار، با اخلاق میڈیا اور تعلقاتِ عامہ بالخصوص سوشل میڈیا کے حوالے سے بلا کا ہنر رکھنے والی شخصیت۔ آپ کا تعلق ضلع گجرات کے معروف شہر لالہ موسیٰ سے ہے. پیشہ کے اعتبار سے صحافی ہیں اور یہی اوڑھنا بچھونا ہے، تا ہم ان کی صحافت کا انداز تھوڑا مختلف اور منفرد ہے. یہ دیگر صحافیوں کی طرح نہ تو بے تکی رپورٹنگ کرتے ہیں اور نہ ہی سیاسی ڈیروں اور تھانے کچہری میں دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہ دفتر میں بیٹھ کر بین الاقوامی صحافت کے مزے لیتے ہیں. ’’ڈیلی جلا وطن‘‘ کے نام سے ملک و بیرونِ ممالک مقیم پاکستانیوں کی تعلقاتِ عامہ کی سرگرمیوں کو میڈیا کی زینت بناتے ہیں. بلال احمد کو کمپیوٹر گرافکس ڈیزائننگ کے شعبہ میں بے مثال مہارت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ کمپوزنگ، ڈیزائننگ کے حوالے سے کسی قسم کی محتاجی نہیں بنتی، تمام کام خود ہی کر لیتے ہیں۔ ’’مد مقابل‘‘ نے گزشتہ روز ان سے ایک ملاقات میں صحافتی حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس دوران جو گفتگو ہوئی وہ نذرِ قارئین ہے۔
محمد بلال احمد نے بتایا کہ انہوں نے صحافت کا آغاز 1994ء میں روزنامہ روزن، گجرات سے کیا. 1998ء میں لالہ موسیٰ سے ہفت روزہ آئینہ انقلاب کا اجراء ہوا تو اس سے منسلک ہو گئے. اس دوران مختلف علاقائی اخبارات سے وابستگی رہی اور ان کی تیاری میں معاونت کرتے جن میں ’’مد مقابل‘‘ اخبار بھی شامل رہا ہے۔ 2004ء میں ڈنگہ سے مختلف اخبارات مالکان نے ان سے رابطہ کیا اور اخبارات کی تیاری میں ان کی خدمات حاصل کیں. 2011ء تک شہر ڈنگہ میں صحافتی خدمات سر انجام دیتے رہے. ڈنگہ پریس کلب رجسٹرڈ میں بھی ذمہ داریاں سنبھالیں. 2011ء میں وقت نے کروٹ لی، سوشل میڈیا کا دور آیا تو بلال احمد نے اس وسیع میدان میں محنت شروع کر دی. پرنٹ میڈیا کو خیر باد کہا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی رہی کہ بلال صاحب نے پرنٹ میڈیا میں محنت بہت زیادہ کی مگر نتیجہ خاطر خواہ نہ رہا. جب کہ سوشل میڈیا نے ان کو نہ صرف پہچان دی بلکہ بہت مفید بھی ثابت ہوا. آج کل آپ کا میڈیا گروپ ڈیلی جلا وطن، گجرات نیوز اور نارویجن میڈیا کے نام سے صحافتی خدمات سرانجام دے رہا ہے.
ایک سوال کے جواب میں کہ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں کس کو بہتر پایا؟ بلال احمد کا کہنا تھا کہ تقریباً 20 سال کا عرصہ پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہا لیکن گمنامی کی زندگی گزاری چوں کہ دفتری کام تھا اس لیے منظرِ عام پر آنے کے مواقع نہیں ملے لیکن جب سے سوشل میڈیا سے منسلک ہوا ہوں، دنیا بھر میں پہچان بنی۔ آغاز سکینڈے نیویا کے ملک ناروے سے کیا، اس کے علاوہ سکارٹ لینڈ، ڈنمارک، اٹلی، فرانس، جرمنی ، بیلجیئم، یونان، سپین، پرتگال، امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، عرب امارات سمیت مختلف ممالک میں اوورسیزشخصیات سے تعلقات بنے جن میں مزید استحکام رہا، کمی نہیں آئی. یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور بلال احمد کو سیکڑوں افراد کا تعاون حاصل ہے۔
موجودہ صحافت پر تبصرہ کرتے ہوئے بلال احمد نے کہا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اور انبیاء کی سنت ہے. اگر سچ کا ساتھ لے کر اس پر کاربند رہیں تو میری نظر میں اس سے بہتر کوئی کام نہیں. اگر بندہ حق سچ کا علم بردار ہے اور اس پر کاربند ہے تو یہ پیشہ تمام ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور سچا مسلمان اور اچھا انسان بناتا ہے لیکن موجودہ وقت میں بعض لوگ صحافت کا لبادہ اوڑھ کر اسے اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس مقدس پیشے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ میں 13سال سے سوشل میڈیا کے ذریعے پبلک ریلیشنز سے منسلک ہوں، میرا ضمیر مطمئن ہے. کبھی جھوٹ یا فریب کا سہارا نہیں لیا، نہ کسی کو دھوکہ دیا. یہی وجہ ہے کہ میرے ساتھ وابسطہ افراد مجھ سے سو فیصد خوش اور مطمئن ہیں۔ اوور سیز پاکستانی مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، عزت اور شفقت سے پیش آتے ہیں، اس کی وجہ میری عاجزی اور محنت ہے. میری کامیابی کا سہرا اوور سیز پاکستانیوں کے سر جاتا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک مثبت پلیٹ فارم ہے. اگر اچھے انداز سے استعمال کیا جائے تو اپنی بات آگے بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اینکر حضرات کو چاہیے کہ حق کا پرچار کریں، سنسنی پھیلانے کے بجائے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کی بات کریں. پاکستان کو عالمی دنیا کے سامنے اچھے انداز میں پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے حوالے سے بھی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے. حکومت کو چاہیے کہ بے ہنگم سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے. نامناسب پوسٹوں کو روکنا چاہیے. اس پلیٹ فارم کے ذریعے خواتین کی کسی بھی حالت میں کردار کشی نہیں ہونی چاہیے. کسی کی عزت کی پامالی نہیں ہونی چاہیے. سوشل میڈیا پر آج کل ایسا ہو رہا ہے، میں اس معاملے کی پر زور مذمت کرتا ہوں. سوشل میڈیا پر کسی کی بھی تذلیل نہیں ہونی چاہیے۔
بیروزگار نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں بلال احمد نے کہا کہ نوجوان سوشل میڈیا سے استفادہ کر کے روزگارکے مواقع حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی ماہانہ آمدنی بڑھا سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے ایماندار ہونا ضروری ہے. مثبت سوچ کے ساتھ کام کریں تو کامیابی ملے گی. منفی پوسٹوں اور دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے. میں سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم سے آج تک کسی کے خلاف کوئی منفی خبر نہیں چلائی۔
محمد بلال احمد کا عزم ہے کہ محب وطن رہ کر کام کرنا ہے. وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں، اگرملک نہیں تو ہم بھی نہیں. جو نوجوان صحافت کو بطور پیشہ اپنانا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اچھے لوگوں سے رہنمائی لیں. صحافت کرنا اتنا آسان نہیں، اس رستے میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں. سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت آپ کا مشن ہونا چاہیے. ملکی کاز کے خلاف ہونے والے تمام حربوں کی مذمت کریں اور حق سچ کو لے کر صحافت کریں۔
انٹرویو کے آخر میں ادارہ ’’مد مقابل‘‘ کی جانب سے بلال احمد کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا جب کہ محمد بلال نے نہ صرف ’’مد مقابل‘‘ کی صحافتی خدمات کو سراہا بلکہ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی.