وہ – نائلہ راٹھور

وہ سب کے لیے انصاف مانگتا تھا
نظمیں لکھ کر
اس کے نوحوں میں
ماں کا درد چھپا تھا
جو نامعلوم افراد میں
اپنا بیٹا ڈھونڈتے ڈھونڈتے
بینائی کھو چکی تھی
اس بہن کی سسکیاں
صرف وہ سن سکتا تھا
جو لاپتہ لوگوں میں
اپنا بھائی تلاشتی
مایوسی کی اندھی قبر میں جا اتری تھی
وہ کشکول اٹھائے شہر کی سڑکوں پر انصاف مانگتا رہتا
لوگ اسے عادی بھکاری سمجھ کر دھتکار دیتے تھے
وہ برا نہیں مناتا
وہ جانتا ہے
جن کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں اور گھروں میں آسودگی کھیلتی ہے
وہ غم بھوگنے والوں کے درد سے ناآشنا رہتے ہیں
آنتوں کاقتل
معدے سے کھانے کی لزت اور شہوت چھین لیتا ہے
ابھی جو گولی ان کے گھر تک اور جو
زخم ان کے بدن پر نہیں لگا
اس کے درد سے وہ ناآسنا ہیں
مگر اگلا نشانہ وہ بھی ہو سکتے ہیں
اس لیے وہ
بنجر آنکھوں میں خواب سجائے
سنگ ہاتھوں میں کشکول پکڑے
انسانیت کو بھنبھوڑتے ہوئے
ان لوگوں کو فراموشی کی
نیند سے جگانے میں لگا رہتا تھا
جانے کب اگلی گولی اس کے لیے ہو
مگر
نہ تو اب کوئی اسے رونے والا تھا
اور نہ ہی
ڈھونڈنے والا
مگر تاریخ لکھے گی
”وہ‘‘
تھا
جو ہمیش انہونی کا منتظر رہا
اور آخری مرتبہ بھی
جب شہر کے لوگوں نے اسے دیکھا
تو اپنی منتظر اندھی آنکھیں لیے
لرزاں ہاتھوں سے
کوڑے کے ڈھیر سے
انصاف کا لاشہ
شاپر میں لپیٹ رہا تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں