آسٹریلیا میں ایک دفعہ جب ایک ماہر مگس بانی ( مکھیاں پالنا) سے سوال کیا گیا کہ عام مکھیوں اور شہد کی مکھیوں میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب تھا کہ عام مکھیاں فطرتی طور پر میٹھے کی طرف آتی ہیں جبکہ شہد کی مکھیاں میٹھا لاتی ہیں۔ شہد انسان کے لئے قدرت کا وہ عطیہ ہے جس کی افادیت خود مالک کائنات نے اپنی مقدس کتاب میں اس کو ” شفا ” قرار دے کر بیان کر دی ہے۔ ایک روایت کے مطابق شہد میں ننانوے بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔ شہد کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اشیائے خورونوش پر سب سے زیادہ تحقیق شہد اور شہد کی مکھیوں پر ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔ 1973ء میں شہد کی مکھیوں پر وسیع ترین تحقیق کرنے پر آسٹریا کے سائنسدان وان فرش کو نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ لہذا شہد کی خالق ان مکھیوں بارے جاننا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ شہد کی مکھیوں کا رہن سہن اور گھروں یعنی چھتوں کا نظم ونسق اس منظم اور احسن طریقے سے چل رہا ہے جیسے کسی ترقی یافتہ ملک کا نظام سلطنت ہو۔ جس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مکھیاں چھتہ بناتی ہیں جو سوراخوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ مکھیاں ان سوراخوں کو جو مسدس یعنی چھ کونوں والا ہوتا ہے اس خوبصورتی اور یکسانیت سے بناتی ہیں گویا کسی ماہر تعمیرات نے باقاعدہ ڈرائنگ کر کے اسے تعمیر کیا ہو۔ ان سوراخوں کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی بھی ناقابل یقین حد تک ایک جتنی ہوتی ہے۔ ہر مکھی انتہائی مستعدی سے وہی کام سرانجام دے رہی ہے جو قدرت نے اس کے سپرد کر دیا ہے۔ دراصل قدرت نے ان مکھیوں کو ایک مکمل سسٹم وحی کر دیا ہے تبھی تو یہ ایک منظم اور طے شدہ طریقے سے اپنے اپنے کام میں جتی رہتی ہیں۔ پیدائش کے پندرہ بیس دن بعد مکھیاں کھانا اور پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں۔ مکھی کو کھانا اور پانی کی تلاش میں روزانہ کئی کئی میل سفر کرنا پڑتا ہے۔ وہ چھتوں سے کھانے کی جگہوں تک بڑی مستعدی سے سفر کرتی رہتی ہیں۔ یہ اپنے سفر کا آغاز صبح منہ اندھیرے سے شام کا اندھیرا چھانے تک کرتی رہتی ہیں۔ اگر ایک ہزار چھتے بھی قریب قریب ہوں تو یہ اپنا چھتا باآسانی پہچان لیتی ہیں۔ جب مکھیاں کھانے کے ذخائر کا کھوج لگا لیتی ہیں تو وہ مخصوص حرکات سے اپنی ساتھی مکھیوں کو اس کی اطلاع کر دیتی ہیں اور ذخائر کی سمت کا پتا بھی بتا دیتی ہیں۔
شہد کی مکھیوں کی درجہ بندی
ملکہ مکھی کا کام صرف انڈے دینا ہوتا ہے۔ یہ ہر چھتے میں صرف ایک ہوتی ہے اور سائز میں دوسری مکھیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ یہ ایک دن میں 1500 تک انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی طبعی عمر تین چار سال تک ہوتی ہے۔ ہر چھتے میں 200 کے لگ بھگ نر ہوتے ہیں۔ عموماً نر چار ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔ کارکن مکھیاں بناوٹ میں ملکہ اور نر سے چھوٹی ہوتی ہیں۔ ان کا کام چھتہ بنانا اس کی صفائی، پھولوں سے رس چوس کر لانا، لاروے اور ملکہ کو خوراک کھلانا شامل ہے۔ ایک مکھی دن بھر میں دس سے بارہ مرتبہ پھولوں کا رس چوسنے جاتی ہے۔
یہ شہد کیسے بناتی ہیں؟
اللہ نے شہد کی مکھیوں کو پھولوں کا رس چوسنے کے لئے ٹیوب کی مانند زبان دی ہے۔ یہ چوسا ہوا رس اسی ٹیوب نما زبان کے اندر تہہ کر کے رکھ لیتی ہیں۔ جب یہ لگ بھگ سو پھولوں کا رس چوس لیتی ہیں تو واپس آ کر چھتے میں انڈیل دیتی ہیں۔ پھر کارکن مکھیاں اس میں اپنا لعاب دہن شامل کر کے اسے شہد میں تبدیل کر دیتی ہیں۔
کچھ دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں
ایک جدید تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی میں گیارہ پیٹ ہوتے ہیں جس میں سے تین شہد اور آٹھ میں مختلف قسم کے انزائم اور ادویات موجود ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مکھیوں کو دیکھنے کی خصوصی طاقت بخشی ہے جس کے سبب یہ روشنی کی ان لہروں کو بھی دیکھ سکتی ہیں جن کو انسان نہیں دیکھ سکتا۔
ان میں سونگھنے کی صلاحیت حیران کن حد تک پائی جاتی ہے یہ دو میل کے فاصلے سے باآسانی سونگھ لیتی ہیں۔
یہ جب واپس اپنے چھتے میں آتی ہیں تو محافظ یعنی کارکن مکھیاں انہیں باقاعدہ چیک کرتی ہیں کہ وہ مبادا اپنے ساتھ کسی قسم کا زہریلا مادہ تو نہیں لائیں۔
شہد کے ایک چھتے میں بیک وقت 80 ہزار تک مکھیاں ہو سکتی ہیں۔
انسانی آنکھ کے برعکس دو عدسوں کی بجائے شہد کی مکھی کی دو آنکھوں میں چھ چھ ہزار عدسے ہوتے ہیں جس کے سبب وہ دیکھنے کی غیر معمولی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہیں۔
محض آدھا کلو شہد کے لئے ان کو بیس لاکھ کے لگ بھگ پھولوں کا رس حاصل کرنا پڑتا ہے اور اس مقصد کے لئے انہیں ہزاروں میل تک کا سفر طے کرنا پڑ جاتا ہے۔
اگر چھتے کا درجہ حرارت زیادہ ہو تو مکھیاں اپنے پروں کو حرکت دے کر یعنی ان سے پنکھے کا کام لے کر حرارت کو روک لیتی ہیں۔
اگر شہد کی مکھی تیس گرام شہد کھا لے تو اس کے جسم میں اتنی توانائی آ جاتی ہے کہ وہ پوری دنیا کا چکر لگا سکتی ہے۔
شہد کی مکھیاں ہوا کی لہروں کی مدد سے سمت معلوم کر لیتی ہیں۔
جب ملکہ مکھی اپنی نشست سنبھالنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو وہ بھنبھنا کر اس کا اعلان کرتی ہے لیکن اگر ایک ہی وقت میں دو ملکائیں آمنے سامنے ہوں تو وہ اس وقت تک ایک دوسرے سے لڑتی رہتی ہیں جب تک ان میں سے ایک یا پھر دونوں مر نہ جائیں۔
ہر چھتے میں صرف ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے، اس کی زندگی کا مقصد انڈے دینا اور خاندان کو منظم رکھنا ہوتا ہے۔ ایک دن میں یہ لگ بھگ پندرہ سو اور پوری زندگی میں دو لاکھ تک انڈے دے سکتی ہے۔ ملکہ مکھی تین سے چار سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔
جب ایک مکھی انڈے دیتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی ساتھی مکھیوں کو کہتی ہے کہ باقیوں کی بھنبھناہٹ رکنے نہ پائے۔
تحریر: تحریم نیازی نیوٹریشنسٹ