قلم کے ساتھ ظُلم – مفتی اظہار احمد

کچھ دن پہلے میرا ایک امریکی ریاست کے عوامی مقام پہ باتھ روم استعمال کرنے کا اتفاق ہوا. اس کے بعد ہاتھ دھوئے اورپھر ہاتھ خشک کرنے کی مشین (Dyson Airblade) استعمال کی اور جب دروازہ کے قریب پہنچا تو وہاں پہ ایک سکرین لگی ہوئی تھی، اس پہ تین طرح کے ایموجی نظر آرہے تھے۔ پہلا والا poor، دوسرا average اور تیسرا Excellent
اور اس پہ انگلش میں لکھا تھا:
”آپ آج کتنی ریٹنگ دیں گے اس باتھ روم کو۔‘‘
مطلب اتنی صفائی کے باوجود بھی پوچھ رہے ہیں کہ باتھروم کی صفائی سے آپ کتنے مطمئن ہیں۔ تو چوں کہ باتھ روم صاف تھے تو میں نے Excellent والے ایموجی پہ ٹچ کیا توسکرین پہ شکریہ لکھا آیا اور میں آگے بڑھ گیا۔ اس وقت ایک خیال جو ذہن سے گزرا تھا وہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
اللہ معاف کرے جب پاکستان میں تھا تو کبھی کبھار واش روم جانے کی ضرورت پڑتی تھی. جی ٹی روڈ پہ، پٹرول پمپ یا لاری اڈہ وغیرہ پر، میر ی طرح آپ کوبھی ظاہر ہے ضرورت ہوتی ہوگی۔ سوائے موٹروے اور کچھ جگہوں کے علاوہ واش رومز کی جو حالت ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔
جیسے ہی آدمی عوامی ٹوائلٹ میں جاتا ہے، پہلی بات واش روم کے حالات تعفن کا شکار ہوتے ہیں، آپ دس روپے (جو اُس وقت تھے) دیتے ہیں، اپنی قضائے حاجت پوری کرنے کے لیے، اس کے باوجود آپ کو ایک جنگ کا سامنا ہوتا ہے۔ اوپر سے جلتی پہ تیل ایک عجیب وغریب خرافات دیواروں پہ دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بندہ کیا بتائے. کسی نے شاعری کے رنگ جھاڑے ہوتے ہیں اور بعض کو پینٹنگ کے لیے بس یہی جگہ میسر آتی ہے. کسی نے فون نمبر لکھے ہوتے، بعضوں نے تو باتھ روم کو ایڈورٹائزنگ کی بہترین جگہ سمجھ کر اپنے اشتہار دیے ہوتے ہیں. کہیں عجیب وغریب گالیاں لکھی ہوتی ہیں، کوئی ناکام مجنوں اپنی لیلا کی داستانیں لکھ رہا ہوتا ہے اورکہیں نعرہ بازی زوروشور پہ ہوتی ہے کہ فلاں زندہ باد، مردہ باد۔ یہاں تک کےمسجد کے واش روم جائیں تو وہاں بھی کسی نے معاف نہیں کیا ہوتا. ان سب چیزوں کے ساتھ تو ضرور آپ کا بھی واسطہ پڑا ہوگا.
ایک منٹ کے لیے سوچیے!! کیا قلم کواللہ نے اس کام کے لیے بنایا تھا کہ اپنا فن یوں دکھائیں، باتھروم کی دیواروں پہ؟ اس قلم کو کیا مقام حاصل ہے اس کی طرف سوچیے! اس کا تذکرہ اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں کیا ہے. قلم کے نام سے قرآن میں ایک صورت ہے۔ اللہ نے اس کو علم سکھانے کا آلہ قرار دیا ہے۔ اور تو اور اللہ نے اس قلم کی قسم تک اُٹھائی ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے جو قلم کو اس کے اصل مقام کے علاوہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ظلم کی لغوی اصطلاح بھی یہی ہے ’’وضع الشئی فی غیر محلہ ظلم.‘‘
ظلم کا معنٰی ہے کسی چیز کو اس کے اصل مقام کی بجائے کسی دوسری جگہ پر رکھنا۔ قلم کے اصل لکھنے کی جگہ جو مقام ہے اس کو چھوڑ کر کہاں استعمال شروع کر دیا ہے لوگوں نے۔ الامان والحفیظ۔
دوسری بات ”الطہور شرط الایمان‘‘، والی حدیث مسلمانوں کے لیے ہے نہ کہ کفار کے لیے۔
ہمارے معاشرے میں یہی دو بیماریاں بہت بُری ہیں جن سے بہت تکلیف ہوتی ہے، ایک تو صفائی کا نہ ہونا اور ایک عوامی باتھ روموں میں لکھائی۔ اگر لکھائی کا بہت شوق ہے تو اس کو کسی اورجگہ پر پورا کیا جا سکتا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے لوگ ایسی جگہ کا انتخاب فرماتے ہیں جس کے بارے میں ہمارے نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے ”الہم انی اعوذبک من الخبث والخبائث۔‘‘ یہ پناہ کا فرمان ہے اللہ کے نبیﷺ کا۔
غیر مسلم ممالک اپنے علاقوں کو ایسا صاف رکھتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے طہارت کی تمام احادیث، آیات جیسے ان کو ہی پتہ ہوں جو ہمارے نبیﷺ نے فرمائی ہیں۔ تمام قارئین سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ جس عہدہ پہ ہوں، جس منصب پہ ہوں، اپنی وعظ و نصیحت اور دورانِ لیکچر ضرور ان برائیوں کی نشاندھی کرائیں تاکہ معاشرہ اچھائی کی طرف آگے بڑھے۔ آنے والی نسلیں تو کم ازکم اس برائی سے بچ جائیں۔ اگر متفق ہیں تو میرا پیغام آگے شیئر کریں. ہو سکتا ہے کوئی نہ کوئی قلم کا مقام جان لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں