امریکہ میں اسلام اور مساجد – مفتی اظہار احمد

میرے چند دوستوں نے مجھ سے کئی بار پوچھا ہے کہ امریکہ میں اسلام کی کیا صورتِ احوال ہے؟ کیا وہاں آپ کو مسجد جانے اور مسجد بنانے کی اجازت ہے؟
اُن کا سوال بنتا ہے، کیوں‌ کہ جو میڈیا دکھاتا ہے، حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ویسے امریکہ میں یہاں قانون کی پہلی شق یہی ہے کہ Freedom of religion یعنی مذہب کی آزادی! آپ جس مذہب کی عبادت کرنا چاہیں آپ سے کوئی پوچھے گا نہیں اور نہ ہی پوچھ سکتا ہے۔
1880ء سے 1914ء کے دوران ہزاروں مسلمان، سلطنت عثمانیہ اوردیگر ایشیائی ممالک سے ہجرت کرکے امریکہ پہنچے تھے۔ ویکی پیڈیا کے مطابق افریقہ سے لائے گئےغلاموں میں بھی تقریباً 15 سے 30 فیصد مسلمان تھے۔ بیسویں صدی کے دوران امریکا کے ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے مسلم ممالک سے بہت بڑی تعداد میں مسلمان یہاں آئے۔ شروع میں مساجد بہت کم تھیں بلکہ نہ ہونے کے برابر تھیں، لیکن جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو مساجد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا. اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب اپنے دین کا کام لینا چاہتے ہیں تو وہ کسی کا انتظار تو نہیں فرماتے۔ مجھے یاد ہے ہمارے استاد مفتی صاحب کلاس میں ہمیں فرمایا کرتے تھے ”یہ سامنے جو الماری میں المعجم المفہرس آٹھ جلدوں پہ مشتمل کتاب پڑی دیکھ رہے ہو، یہ کسی علامہ نے نہیں جمع کیں، یہ ایک غیر مسلم کی جمع شدہ ہے. دیکھو! اللہ اپنے دین کا کام لینے میں مسلمانوں کا محتاج نہیں. کفار سے بھی دین کا کام لےلیتا ہے۔‘‘
المعجم المفہرس یہ وہ کتاب کہلاتی ہے جس میں کسی ایک یا متعدد کتابوں کی احادیث کی فہرست بنا دی گئی ہو تاکہ حدیث کی تلاش میں آسانی ہو سکے۔ لوگوں کے دِلوں میں کیا تدابیر ہوتی ہوں گی لیکن اللہ کی تدابیر کی طرف کسی کا ذہن تک نہیں جاتا۔ خیر میں بات کررہا تھا مساجد کی، جب مسلمانوں نےتعلیم حاصل کرنے کی غرض سےامریکہ کا رخ کیا، خاص طور پر ڈاکٹرز حضرات نے، تومیرے کچھ دوست جو یہاں پندرہ بیس سال سے رہ رہے ہیں، ان کا تعلق میڈیکل کے پیشہ سے ہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ جب بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں سے ہماری تعلیم مکمل ہوئی تو ہمیں دو آپشن دیے گئے، یا تو آپ واپس اپنے ملک جائیں اور اگر یہاں رہنا ہے تو اپنے لیے ملازمت تلاش کرنا ہوگی. جب تک آپ کے ویزہ کی مدت ہے، اگر آپ کو ملازمت مل جاتی ہے تو ٹھیک ہے. ویزہ کے لیے اگر وہ ہاسپٹل یا ادارہ اپنے ذریعہ سے اپلائی کرائیں تو آپ یہاں رہ سکتے ہیں۔ ظاہر بات ہے بڑے شہروں کے اپنے جو رہائشی لوگ ہوتے تھے ان کی تعلیم جب مکمل ہو جاتی تووہ تو چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں جانا کہاں پسند کرتے تھے، تو ان چھوٹےعلاقوں میں ڈاکٹرز کی کافی ضرورت ہوتی تھی. اس وقت تو ان غیرمملک کے ڈاکٹرز کے پاس اور کوئی انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نےقصبوں اور دیہاتوں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ یہاں یہ بات بتاتا چلوں، کہ آپ اگرکسی غیر مسلم ترقی یافتہ ملک کا سفر کرتے ہیں توآپ کو دنیا کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں، لیکن ایک چیز جس کی تمام والدین کو فکرلاحق ہوتی ہے وہ ہے اولاد کی تربیت، کہ کہیں ہماری اولاد راستے سے بھٹک نہ جائے، دین سے دور نہ ہو جائے، اُن کوحرام اور حلال کا بتانا پڑتا ہے۔ بچوں کو یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ ہر چیز کھانے سے پہلے آپ نے ضرور اجزائے ترکیبی لازمی پڑھنے ہیں کہ کہیں کوئی حرام چیز کی ملاوٹ نہ ہو۔
پہلے پہل جمعہ کی نماز کے لیے بعض لوگ گھنٹوں کی مسافت طے کر کے جاتے تھے، تاکہ بچوں کی مسلمان لوگوں سے ملاقات ہو اور ان کے دل میں اسلام کی اہمیت پیدا ہو جائے۔ یوں ان سب چیزوں کے لیے والدین کو بہت مشقت اٹھانا پڑتی تھی. ہر اتوار کو دو دو گھنٹے سفر کرتے تھے، کسی قاری یا عالم کے پاس قرآن پڑھانے کے لیے۔ بہرحال تو میں آتا ہوں اپنے موضوع کی طرف، تو جب یہ مسلمان ڈاکٹرزحضرات جس علاقہ یا قصبے میں جاتے تو اپنے بچوں کی خاطر مسجد یا مصلٰی بنا دیتے اور اس کو خود ہی چلاتے۔ امام بھی خود ہوتے، بچوں کو دین کی تھوڑی بہت تعلیم اپنے علم کے مطابق دیتے تھے، پھر کہیں کسی ملک سے امام کو کچھ عرصہ بعد سپانسر کر کے لے آتے تو اس طرح امریکہ میں مساجد کی تعداد بڑھتی گئی اور میں یہ بات فخر سے کہتا ہوں، ماشاءاللہ زیادہ تر جو مساجد اور اسلامک سینٹر چلانے والے نگران ہیں وہ ہمارے پاکستانی ڈاکٹرز، پروفیسرز اورآئی ٹی ماسٹرز لوگ ہی ہیں۔ آج اگر آپ کہیں کسی ریاست میں سفر کر رہے ہوں اور اچانک نماز کا وقت ہو جائے تو آپ کو جی پی ایس کے ذریعے کوئی قریبی اسلامک سینٹر یا کہیں گھنٹہ کے اندر کی مسافت سے کوئی نہ کوئی مسجد یا مصلٰی مل ہی جائے گا۔ تو یہ تحریر لکھنے کامقصد یہ بتانا تھا کہ کبھی کسی نے تو یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ چھوٹے دیہاتی علاقوں میں اللہ کے گھر بنیں گے اور آباد ہوں گے، اللہ اکبر کی صدائیں گونجیں گی۔ امریکن سٹیزن ڈاکٹرز کا چھوٹے علاقوں میں نہ آنے کے وجہ سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے دین کی آبیاری مسلم ڈاکٹرز کے ہاتھوں سےکروا دی۔
ایک تحقیق کے مطابق سنہ دو ہزار سے پہلے پورے امریکہ میں صرف ستر مساجد تھیں،آج ماشاءاللّہ کم و بیش اٹھائس سوکے قریب مساجد اور مصلے ہیں۔ امریکہ میں مسجد ہی ہمارے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ ہمارے کبھی کبھار چھوٹے موٹے جو پروگرام ہوتے ہیں، کمیونٹی کی سطح پہ، وہ بھی مسجد میں ہی منعقد ہوتے ہیں. بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان مساجد سے دور نہ ہو جائیں اور ان کا مسجد سے قُرب رہے۔ بہت سی اور بھی یہاں کے مسلمانوں کے حوالہ سے اچھی باتیں ہیں، وہ کبھی موقع ملا تو ضرور لکھوں گا، انشاءاللہ. بس یہی دعا ہے اللہ تعالی ہم سب کے ایمان اور دین کی حفاظت فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں