لوگوں کو کہتے سنا: ”بہت اچھا ہوا آپ لوگوں کے ساتھ۔۔۔‘‘ – مفتی اظہار احمد

پہلے تو لوگ کرونا کی وبا کو ایک مزاق سمجھ رہے تھے، ہر روز نئے نئے لطیفے بیان کرتے تھے۔ ایک شخص کو میری طرح آپ نے بھی ویڈیو میں دیکھا ہوگا کہ وہ کھانسی یا چھینک مار کر بھاگ جاتا تھا، کوئی کہتا تھا چائنیز گند کھاتے ہیں اس وجہ سے یہ بیماری ان کو لگی ہے، ہمیں تو اس کی بو تک بھی نہیں لگے گی، جتنے منہ اتنی باتیں۔ شروع شروع میں کسی پہ خاص اثر نہیں پڑ رہا تھا، لیکن آہستہ آہستہ وبا بڑھتی گئی، ڈر کی کیفیت انسانوں کے دِلوں میں گھر کرنے لگی۔ اسی دوران میں نے خبروں میں پڑھا کہ چین میں پیپر ٹاول اور ٹوائلٹ پیپر نہیں مل رہے، مارکیٹوں سے شارٹ ہو گئے ہیں، سٹوروں سے راشن غائب… کچھ میری طرح کے لوگ بھی تھے جوسوچتےتھے ”ہنوز دہلی دور است۔‘‘
اٹلی کی صورتِ حال جب خراب ہونا شروع ہوئی تو اس کے بعد لوگوں نے کرونا کو سنجیدہ لیا۔ تو ایک دن جب والمارٹ جانا ہوا توافراتفری کا عالم تھا، فرجوں سے دودھ غائب، بریڈ، پیپر ٹاول اورپانی کی بوتلیں تک غائب۔ اللہ کا شکر ہے ہم مسلمان لوٹااستعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو دیگر مذاہب کی طرح استنجے کی پریشانی نہیں تھی۔ خیرگھبراہٹوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا، عجیب سی بےچینی کی کیفت میں سارا عالم مبتلا تھا. روڈ، گلیاں اور میدان سنسان پڑے ہوئے تھے، ایک ہو کا عالم تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ خیال کرنا شروع کر دیا تھا کہ دنیا ختم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ جب ڈاکٹروں نے کہا کہ ہرایک نےاپنے آپ کو کرونا کے جراثیموں سے بچانا ہے تو ایک خاص قسم کا لوشن استعمال کرنا پڑے گا. چہرے پہ ماسک لگانا ہو گا۔ گھر کے اندر ڈس انفیکشن ڈیزیز کے سپرے کرنے ہوں گے۔ بہرحال، ہینڈ سیناٹئزر، جس کو ترقی پزیر ممالک میں کوئی جانتا تک نہ تھا، کا استعمال شروع ہوگیا۔
کچھ لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کو پیسے کمانے کی سوجھی. استعمال کی یہ چند اشیا انہوں نے گھر میں بنانا شروع کر دیں۔ اصل یا غیر اصل، ایسے وقت میں کوئی نہیں دیکھ رہاتھا، بس نام ہونا چاہیے تھا ماسک اورسینیٹائزر کا۔ بات جب یوٹیوبرز تک پہنچی تو ایسی صورتِ حال میں وہ بھی اپنے ویورز زیادہ کرنے کے چکر میں نقلی سائنسدان بن گئے. کھانے کی ہنڈیا اور میک اپ کی برشیں چھوڑ کر سینیٹائزر اور ماسک بنانے کے طریقے بتانا شروع کر دیے۔ ”کہ ہوم میڈ سینیٹائزر کیسے بناتے ہیں؟‘‘
دستانے اور ماسک، جن کو کوئی پوچھتا تک نہ تھا، ان کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئں اور رہی سہی کسر دونمبر پروڈکٹ بنانے والوں نے پوری کی اور ماسک بنانا شروع کر دیے۔ میرے ایک کزن نے بتایا کہ ایک سیلر جو ہمیشہ ڈاکٹر کی پروڈکٹس سیل کیا کرتا تھا، اس نے چائنہ سے کوئی بڑی تعداد میں ماسک آرڈر کیے تھے، وہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ کرونا کی وبا شروع ہو گئی، اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس کی لاٹری نکل پڑی. جولاکھ کا مال منگوایا تھا غالباً بیس، تیس یا چالیس لاکھ میں واپس اسی کمپنی کو بیچ دیا۔ اسی دوران افراتفری کے عالم میں ذخیرہ اندوز کہاں پیچھے رہ سکتے تھے، انہوں نے موقع غنیمت جان کرذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ وائپس، جرمکس، دستانے، ماسک اور ہینڈ سینیٹائزر سٹاک کرنا شروع کردیے کہ جب مزید مہنگے ہوں گے تو بیچیں گے۔ بہرحال اس دن اچانک میری فیس بک وال پر ایک اشتہار نمودار ہوا، لکھا تھا: ”پلیز! پلیز! ہم سے ماسک، سینیٹائزر اور دستانے کے باکس لے لیں!‘‘ قیمتیں اونے پونے داموں میں تھیں، منت سماجت پہ اتر آئے ہوئے تھے۔ لوگ بھی ان کو نیچے کمنٹس میں کہہ رہے تھے کہ ”بہت اچھا ہوا آپ لوگوں کے ساتھ، موقع کا انتظار مہنگا پڑا آپ سب کو۔‘‘
دل تو ایک لمحے کے لیے خوش ہوا کہ آپ کا شمار انہیں لوگوں میں سے تھا کہ جب ان پروڈکٹس کی خاص ضرورت ہمارے ڈاکٹرز کو تھی، جوخطرناک جگہ پر کام کر رہے تھے، ان کےلیے بھی یہ موجود نہیں تھیں اور آپ لوگوں نے چھپا کر رکھی ہوئی تھیں کہ مزید مہنگی ہو تو فروخت کریں گے. اب ایسےلوگوں کے لیے لوگوں کی لعنت ملامت ایک طرف، اللہ کی طرف سے ملعون ہونا ایک طرف تھا۔
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے فرمایا کہ ”ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔‘‘ لیکن اب چوں کہ لوگوں کو زیادہ ضرورت نہیں رہی یا بغیر ماسک کے عادت ہو گئی ہے، اس وجہ سے مانگ نہیں رہی۔ دراصل ہمارے معاشرہ میں تین چیزیں جن کو لوگ شاید گناہ نہیں سمجھتے، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی ہے۔
لہذا آج اگر ذخیرہ اندوز پریشان ہیں تو یہ اللہ کی طرف سے ایک طرح کی وارننگ ہے۔ کبھی کبھی اللہ ایسے طریقے سے لوگوں کو بتاتا ہے کہ تم نے ذخیرہ اندوزی کی تھی اب دیکھ لو نتیجہ۔ ظاہر ہے اللہ انسان کو آواز دے کر تو نہیں بتاتا کہ ”یہ تمہارے کرتوتوں کا نتیجہ ہے.‘‘
بحیثیت مسلمان، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں خود تو بچنا ہے ہی، دوسروں کو بھی ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی سے بچانا ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر آپ لوگوں نے کچھ سپلائی اپنے گھر کے استعمال کے لیے خریدی تھی، جس کی اب ضرورت نہیں رہی، مثال کے طور آپ کو کرونا ہوا تھا اور آپ نے آکسیجن سلنڈر خریدا تھا یا کوئی بھی کووڈ سے متعلق اشیا جو ایمرجنسی یا ہنگامی صورت میں کام آتی ہیں، تواب اللہ نے آپ کو صحت دے دی، تو اس ذات کا شکریہ ادا کریں اور اس کے شکر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ ان اشیاء کو کسی ہسپتال، کلینک یا کسی بھی عوامی صحت کے ادارہ کو ڈونیشن (صدقہ) کر دیں یا کسی جگہ پہ رکھ دیں تاکہ یہ چیزیں دیگر لوگوں کے کام آجائیں۔ ایسا کرنے سے عوام کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ اللہ کے ہاں اجرکے بھی مستحق ٹھہریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں