صفائی اور خوبصورت زندگی – مفتی اظہاراحمد

میں جس ملک (ریاست ہائے متحدہ امریکہ) میں رہتا ہوں تو کبھی کبھار یہاں متعدد مقامات کی خوبصورتی کے ماحول کو کو کیمرے میں سمیٹ کر سوشل میڈیا کی مقبول ترین ویب سائٹس پر اپ لوڈ کر لیتا ہوں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتی ہے. خوبصورتی چاہے جو بھی ہو، انسان کوایک لمحے کے لیے مسحور ضرورکر دیتی ہے۔ میری طرح آپ سب کا بھی یہی حال ہوگا کہ جب آپ کسی چیز کے حسن کو دیکھتے ہوں گے تواس کو محسوس کرتے اور اس کا لطف اٹھاتے ہوں گے. اس کو بیان کرتے ہوں گے. تو عرض یہ تھی کہ دو تین بار ایسا ہوا، جب بھی تصاویر لگائیں تو انہیں کافی پسند کیا گیا۔ گزشتہ دنوں بھی تصاویر اپ لوڈ کیں تو کچھ دوستوں نے جگہ کا پوچھا۔ ایک نے یہاں تک کہا کہ ”صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس پہ عمل صرف امریکہ میں ہوتا ہے؟‘‘ جب کہ ایک اور نے پوچھا کہ ”آپ کی سوشل میڈیا پر لگی تصاویر میں کوئی چیل نہ کوا، نہ کہیں دھول اور نہ ہی دھواں نظر آتا ہے، یہ کیمرے کی صفائی ہے یا واقعی صفائی ہے؟‘‘
میرا جواب تھا کہ یہ کیمرے کا جادو نہیں بلکہ حقیقت میں ہی ایسا ہے۔ چلیں میں اس کا راز آپ سب کو بتاتا ہوں…
ترقی یافتہ ممالک جہاں میں ہوں یا اس کے علاوہ بھی جتنے ممالک ہیں وہاں آپ کو کچھ چیزیں سرے سے نظر ہی نہیں آئیں گی. صفائی، ستھرائی کی وجہ سے۔ مثلاً یہاں پر آپ کو کبھی مکھیاں، مچھر، پسو یا اس طرح کی اشیاء، جو گندگی سے پیدا ہوتی ہیں، کبھی کبھار ہی نظر آئیں گے اور ظاہر بات ہے چیل‘ کوے گندگی کے ڈھیروں پر زیادہ اُڑتے نظر آتے ہیں اور ان ممالک میں اس طرح کے گندگی کے ڈھیر ان کو میسر ہی نہیں تو ان کا آس پاس آنا محال ہے۔ اس کی بڑی وجہ صفائی کا ہونا ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ہر کوئی یہاں جان سے زیادہ صفائی کا خیال رکھتا ہے. آپ کو ہر گھر کے باہر ایک بڑا کوڑادان یہاں کی میونسپل کمیٹی کی طرف سے دے دیا جاتا ہے جو ہرگھر کے باہر رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اب آپ کی ذمہ داری ہے بس! آپ کس طرح کچرہ و گندگی اس میں ڈالتے ہیں۔ پھر کچرہ اٹھانے والی گاڑی آتی ہے اورکوڑا دان کو خالی کرکے چلی جاتی ہے۔ اگر کسی نے کچرہ وگندگی روڈ پر یا کسی اور جگہ پر پھینکا تو اس کو پانچ سو ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ایک دوست جوپاکستان سے نئے آئے تھے وہ دوست کے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے. کسی وجہ سے یہ ہوا کہ پولیس نے گاڑی روک دی تو اسی اثناء میں دوسرے مسافر جو ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے تھے، انہوں نے حسبِ عادت یا شاید کسی اور وجہ سے منہ صاف کرکے ٹشو پیپر گاڑی کا شیشہ کھول کر باہر پھینک دیا. یہ صورتِ حال پولیس دیکھ رہی تھی تو پولیس والے نے کہا کہ ”ابھی آپ کا جرمانہ ڈبل کرتا ہوں.‘‘ گاڑی ڈرائیور نے کہا کہ ”میں واپس اٹھا لیتا ہوں.‘‘ تو پولیس والے نے گھورنے والی آنکھوں سے دیکھ کر کہا ”آپ کیوں اٹھاؤ گے؟ یہ خود اٹھائیں، ورنہ میں آپ کو ڈبل جرمانہ کردوں گا‘‘ یعنی جو کرے، وہی بھرے. توگاڑی میں بیٹھے دوسرے دوست کو کافی شرمندگی اٹھانا پڑی۔ خود جاکر اس ٹشو پیپر کو اٹھایا۔
یہاں کی شاہرات یا سڑکوں کا اردگرد بہت صاف ہوتا ہے. گھاس بڑے سلیقے سے کٹی ہوتی ہے۔ گھاس سے یاد آیا، مزے کی بات یہ ہے کہ روڈ سائڈ کی گھاس کاٹنے کے لیے یہاں ان لوگوں کولایا جاتا ہے جو جیل میں چھوٹے موٹے جرائم کی وجہ سے سزا بھگت رہے ہوتے ہیں. ایسے افراد کو لاکران سے بطور سزا، کمیونٹی سروس کرائی جاتی ہے اور دوسروں کے لیے عبرت کی عبرت۔ دیگر کئی ترقی یافتہ ممالک میں تو صفائی کے قوانین بہت سخت ہیں جیسا کہ سنگاپور میں چیونگم کھانے پہ پابندی ہے. اسی طرح تائیوان اور سناہے انگلینڈ میں بے جا تھوکنے پہ بھی جرمانہ ہو جاتا ہے۔ جاپان ان سے کئی درجے آگے ہے کہ وہاں طلبہ و وطالبا ت کو ادنیٰ کلاس سے ہی یہی تربیت دی جاتی کہ آپ نے اردگرد کا ماحول کیسے صاف کرنا اور رکھنا ہے۔ جاپان میں صفائی کی کئی مثالیں شوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً شن کسن ٹرین کی سات منٹ کی ویڈیو تو اکثر نے دیکھی ہوگی کہ اس میں کیسے پھرتی سے ساری ٹرین کو صاف کیا جاتا ہے۔ جاپان کی فٹ بال ٹیم جب 2014ء میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں حصہ لینے گئی تو انھوں نے صفائی بارے جاپانی رویے کی بھرپورعکاسی کی۔ جب ایک میچ کے بعد جاپانی ٹیم کے کھلاڑی سٹیڈیم میں کوڑا اٹھانے کے لیے رکے تو تماشائی حیران رہ گئے۔
گزشتہ برس پاکستان جانا ہوا، مجھے بھی یہاں رہ کر عادت سی ہو گئی ہے، گاڑی پارک کرنے کے بعد گاڑی میں اگر کوئی کچرہ گندگی بچوں نے بنائی ہو تو توان کو لاکر گھر کے کوڑادن میں ڈال دیتا ہوں. ایسا ہی میں نے پاکستان میں بھی کیا. جب ہم ایک رشتہ دار کے گھر جارہے تھے، راستے میں جب آئس کر یم کھائی تھی، اس کا کور ہاتھ میں تھا، گاڑی سے اتر کر میں وہ ساتھ لے کر جا رہا تھا تو میں نے اپنے رشتہ دار کو وہ کور دیااوراس کو کہا یہ گھر کے کوڑادان میں ڈال دینا. اس نے وہیں گلی میں پھینک کر کہا ”ارے یہ پاکستان ہے، آپ کا امریکہ نہیں! یہاں ہر جگہ اوپن ڈسٹ بن ہے۔‘‘ اس کی اس حرکت پر بڑی حیرانگی ہوئی، سوچ رہا تھا کہ ہم بھی تقریباً اکثرکچرہ و گندگی کے ذمہ دار ہیں۔ ہم بھی ہر خالی پلاٹ ڈھونڈ کر کچرہ پھینکنے کے عادی ہیں۔ باوجود اس کے کوڑادان لگا ہوتا ہے اور اس پہ لکھا بھی ہوتا ہے کہ ”مجھے استعمال کریں.‘‘ لیکن پھر بھی ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا اور وہیں کہیں زمین پر ہی کچرہ گندگی پھینک دیتے ہیں۔ صفائی اگر کرنا ہو تو سب سے پہلے ابتداء اپنے سے کرنی چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں اگر ہم اپنے گاڑی سے کچرہ و گندگی سڑک یا کسی صاف جگہ نہ پھینکیں تو کافی حد تک صفائی کا ماحول بن سکتا ہے۔ ہمیں حکومت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود بھی ایک اچھا شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے. اپنے بچوں کو تربیت دینی چاہیے کہ آپ نے کچرہ کہاں ڈالنا ہے، کیسے اپنے گھر اور وطن کو صاف رکھنا ہے وغیرہ. قرآن میں اللہ کی ذات کے بارے میں واضح آیا ہے ”اللہ رب العزت پاک صاف رہنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔‘‘ (القرآن)
یہ حدیث ”صفائی نصف ایمان ہے.‘‘ ہم باربار سنتے اور پڑھتے ہیں، لیکن عمل پیرا ہونے سے پتہ نہیں ہم کیوں دور ہیں؟ ہمارے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کسی ملک کی خوبصورتی کا راز اگر ہے تو وہ صفائی ستھرائی میں ہی رکھا ہے۔ اکبر آلہ آبادی کا شعر ہے:
پاکیزہ ہوا ڈھونڈتا ہوں سانس کی خاطر
اس ذوقِ صفائی کو تکلف نہیں کہتے

اپنا تبصرہ بھیجیں