خدمتِ انسانی اکثر بن جاتی ہے ترویجِ اسلام – مفتی اظہاراحمد

دیکھا جائے تو روئے زمین پر جتنے بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی شخصیت اور نام کے ساتھ منسوب ہیں۔ ہمارا مذہب اور دین نہ تو کسی شخصیت سے، اس کی نسبت ہے اور نہ ہی کسی مخصوص فرقہ کی رہنمائی کرتا ہے، بلکہ یہ ایک خاص صفت کے ساتھ متصف ہے اور وہ صفت ہے امن اورسلامتی۔ انگریزی زبان میں کہا جاتا ہے Peace.
‎اور یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہےکہ مذہب اسلام کسی انسان کی ایجاد نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقوں کا نام ہے جو قرآن اور احادیث سے واضح ہوتے ہیں۔ جوشخص اُن کے لائے ہوئے اصول اور طریقوں کو اپنائے گا تو وہی کامل مسلمان کا خطاب پائے گا۔ اسلام کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر جتنے بھی لوگ بس رہے ہیں وہ ہمارے دین کو قبول کرکے سلامتی کے جھنڈے کے نیچے آنے والے بن جائیں. اس مشن کو پھیلانے کے لیے مختلف لوگ مختلف انداز میں دعوت کےکاموں کواپنائے ہوئے ہیں۔
‎میں جس ملک میں رہتا ہوں ہم بھی اپنی طرف سے اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ہم بھی شہیدوں کی لسٹ میں انگلی کٹوا کر شامل ہو جائیں ‎اوراس مقصدیت اسلام کو پھیلانے میں ہمارا بھی زرہ برابر کردار ادا ہو جائے۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ غیر مسلم ممالک میں دینِ اسلام کو پھیلانے میں سب سے پہلے غیر مسلم ممالک کے باشندوں کو اپنے اخلاق، کردار اور اپنے مسلم ہونے سے واقف اور باور کروانا انتہائی ضروری ہے۔
‎لہٰذا اس پیغام کو پھیلانے میں امریکہ میں کئی اسلامی تنظیمیں مختلف انداز میں دعوت کا کام کررہی ہیں۔ جہاں میں قیام پزیرہوں یہ ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے جس میں مسلمانوں کی کل آبادی کو اگر گِنا جائے تو بچوں اور بڑوں کوملا کرسو، یا سوا سو کے لگ بھگ ہو گی۔ اس آبادی میں ہماراایک چھوٹا سا اسلامک سینٹر قائم ہے۔ جس میں ہماری مسلم کمیونٹی کے لیے ایک ایسا سکول بھی قائم کیا گیا ہے جس کی بنیاد تعلیمِ قرآن پر رکھی گئی ہے اور اس کے علاوہ ہمارے سینٹر میں رضاکارانہ طور پر چند امور فی سبیل اللہ سر انجام دیے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان چند شعبہ جات کا مختصر تعارف کروانا ضروری ہے۔ ان میں سےسرفہرست ”سلام فری کلینک‘‘ ہے۔ ”سلام فری کلینک‘‘ کی بنیاد کیوں رکھی گئی؟ اس کی دو وجوہات ہیں: ایک تویہ کہ مملکتِ امریکہ میں دو چیزیں انتہائی درجہ مہنگی ہیں؛ ہائرسکول کے بعد کالج کی تعلیم اور علاج۔ اگر آپ کے پاس ہیلتھ انشورنس نہیں ہے توعلاج کی مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ایمرجنسی کی صورت میں ہر حال میں آپ کا علاج توہوگا، لیکن اگر کوئی دائمی بیماری ہے تو اس کے لیے آپ کوکافی پیسہ خرچ کرنا ہو گا۔ ‎اس چھوٹی سی کمیونٹی میں الحمدللّٰہ کچھ ہمارے دوست، جن کا پیشہ میڈیکل کے ساتھ منسلک ہے، ‎انہوں نےایک دن یہ بیٹھ کر سوچا کہ ہم اپنی ذات سےانسانیت کوکیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ لہٰذا ایسا کوئی کام اور خدمت سرانجام دی جائے جس سےانسانیت کی خدمت بھی ہو اور ساتھ ساتھ ہمارے دین اور مسلمانوں کانام بھی روشن ہو جائے۔ تو‎ انہوں نے اس اسلامک سینٹر میں ایک فری کلینک کی بنیاد رکھی۔ جس میں ہفتہ والے دن ڈاکٹرز صاحبان اپنی تمام ذاتی مصروفیات اور ضروریات کو ایک طرف رکھ کرخالص اللہ کی رضا کی خاطر اس کلینک کو ٹائم دیتے ہیں اور مفت میں علاج معالجہ کرتے ہیں حالاں کہ وہ اپنا ویک اینڈ مزید پیسہ کمانے میں بھی صَرف کرسکتے ہیں۔
‎مزید براں یہ کہ اس کلینک میں اکثرمریض جو کہ غیر مسلم ہیں، ان کو مفت علاج اور چیک اپ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اگر آپ کے پاس ”سلام فری کلینک‘‘ کی پرچی ہوتوقریبی ہسپتال جا کرمفت لیب ٹیسٹ کروا سکتے ہیں ورنہ ایک ایک ٹیسٹ اور ایکسرے ہزاروں ڈالر میں ہوتے ہیں۔
دوسرا اور اہم مقصد یہ ہے کہ اس خدمتِ انسانیت کے ذریعہ سےاسلام کا تعارف اور اصلی چہرہ اس ملک کے باشندوں کو دکھایا جائے کہ اسلام سلامتی، بھائی چارگی اور دوسروں کی مدد کا نام ہے، نہ کہ اسلام کا وہ چہرہ جس کومغربی میڈیا دکھاتا ہے۔
میں یہاں یہ بتاتا چلوں ایک دفعہ اس سٹیٹ آف الاباما کے سینیٹر وزٹ کے لیے تشریف لائے۔ وزٹ کے بعد کہنے لگے:
you guys are doing a very good job
کہ آپ لوگ توایک بہت ہی اچھا کام کر رہے ہیں۔‎
جب کبھی کبھار کسی سٹور وغیرہ میں کوئی ”سلام فری کلینک‘‘ کا مریض دیکھ لیتا ہے تو ضرور ہمارے ڈاکٹرز کی تعریف کرنے کے ساتھ شکریہ بھی ادا کرتا ہیں ۔ ‎کلینک کی انتظارگاہ میں قرآن کا ترجمہ اور اسلام کے بارے معلوماتی لٹریچربھی رکھا ہوتا ہے کہ کوئی شخص اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہیے تو وہ کر سکتا ہے۔
اس کےعلاوہ ایک اور اہم کام جو رضاکارانہ طور پر انجام دیا جارہے وہ ہے ”فورڈ پینٹری “(food pantry)
ہفتہ میں ایک دن ہمارے بورڈنگ سکول کے طلبا رضاکارانہ طور یہ کام سر انجام دیتے ہیں. یہ طلبا لوگوں میں راشن کا باکس بنا کر فری میں ایسے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں جن کی آمدنی پر کرونا وبا کی وجہ سےکافی اثرات پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ ان دونوں کاموں میں کسی رنگ، نسل اور مذہب کو نہیں دیکھا جاتا۔
الحمدللّٰہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اِن ایک طرح دعوت کے چھوٹے چھوٹے امورسے تقریباً دس لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔ مزید بھی محنت جاری ہے۔ بس دعا کریں اللہ ہم سب کی اس چھوٹی سی محنت کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کو مزید ترقیاں عطا فرمائے اور اللہ تعالٰی اس ادارے کو تمام شرور سےمحفوظ فرمائے، آمین.

اپنا تبصرہ بھیجیں