وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اسلام آباد کے زیر اہتمام تین روزہ خواندگی میلے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جو کہ 25 نومبر 2023ء بروز ہفتہ سے شروع ہوگا اور 27 نومبر 2023ء بروز سوموار تک پاک چاینہ فرینڈ شپ سنٹر، اسلام آباد میں جاری رہے گا۔ اس خواندگی میلے کا مقصد آموزشی مسائل اور تعلیمی درپیش مسائل کے مختلف پہلووں کا جائزہ لینا اور اس کے ساتھ اس بات کو بھی جاننے کی کوشش کرنا کہ ہمارے آج کے بچے کتب بینی سے دور کیوں ہوگئے ہیں۔ ان تمام حقائق کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے گی جو کہ بچوں کو تعلیم کے میدان میں درپیش ہیں اور ساتھ ان مسائل کے مناسب حل بھی تلاش کیے جائیں گے تاکہ تعلیم کے میدان میں بچوں کے سیکھنے اور خواندگی کے مسائل کو نہ صرف حل کیا جائے بلکہ کتب بینی کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے لائحہ عمل پہ بھی غور و فکر کیا جائے۔
کتاب قوم کو تہذیب و ثقافت، دینی و معاشی اور سائنسی علوم سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے، اورکتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ کتاب اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے جب تمام دوست اور پیار کرنے والے ساتھ چھوڑ دیں۔ اگرچہ آج ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ آج نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہورہا ہے، بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن چکا ہے، حالاں کہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لیے ماہرینِ نفسیات بچوں میں مطالعہ کو لازمی قرار دیتے ہیں، کیوں کہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔ آج جو نوجوان مطالعے سے گریز کر رہے ہیں، وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے لایعنی ہوتے جارہے ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین دوست اور ساتھی ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 19 فیصد عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جب کہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا اعتراف کیا ہے.
کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بہت پرانا ہے اور یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں۔ کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے. جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ شے لکھنے کے لیے استعمال کی، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔ کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد کیا گیا. کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔ لیکن کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔ مسلم امہ کا زوال اس کی واضح مثال ہے. ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ سقوطِ بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہا دیے گئے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا۔ جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں، جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28 ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں۔ افسوس مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہلِ یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا۔ بلاشبہ کتابیں انسانی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں، اور ادب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتی ہیں۔
یہ امید کی جاتہ ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام تین روزہ خواندگی میلے کے انعقاد سے طالب علوں میں تعلیمی ترویج اور سیکھنے کی ایک نئی امنگ جنم لے گی اور قومی سطح پہ تعلیم کے مسائل کہ نشاندہی کرنے اور ان سے نمٹنے کے بہت سے حل بھی تلاش کیے جائیں گے.