ابوالاثر حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ہمارے قومی ترانے پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ سارا فارسی میں ہے ماسوا ایک لفظ کے جو ہے ”کا‘‘
آئیے آج اس اعتراض کا جواب ڈھونڈتے ہیں…
قومی ترانے میں یہ الفاظ آتے ہیں:
ذوالجلال، سایہ، خدا، استقبال، جان، حال، شان، ماضی، ترجمان، کمال، ترقی، رہبر، ہلال، ستارہ، پرچم، مراد، منزل، شاد، تابندہ، پائیندہ، سلطنت، ملک، قوم، عوام، اخوت، نظام، سرزمین، پاک، قوت، یقین، مرکز، ارض، عالی شان، نشان، تو، کا، حسین، کشور اور قومی نعرے ’’زندہ باد‘‘
دیکھیے ان میں سے کون سا لفظ اُردو لغت (ڈکشنری) میں نہیں ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب، اب اُردو کے الفاظ ہیں، بلکہ ان میں سے ہر لفظ کے نام والا کوئی اُردو اخبار یا رسالہ بھی نکلتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ”کا‘‘ کی جگہ ”را‘‘ کر دیں تو ایرانی اسے فارسی نظم مان لیں گے، لیکن یہ حفیظ جالندھری کا کمالِ فن کیوں نہ سمجھا جائے کہ انہوں نے دونوں زبانوں کا مشترک ذخیرۂ الفاظ (Vocabulary) استعمال کر کے یہ ترانہ لکھ دیا۔ آخر فارسی (صدیوں سے) اس خطے میں رائج رہی ہے۔ اقبالؒؔ اور فیضؔ کے اُردو کلام میں سے فارسی کے الفاظ نکال دیں تو کتنے فیصد الفاط باقی بچیں گے؟