گزشتہ دنوں نامور کالم نویس، دانشور اور ترک امور کے ماہر فرخ سہیل گوئندی کا کالم ’’کون جائے گا ترکی‘‘ نظروں سے گزرا۔ اس کالم میں گوئندی صاحب نے ہمیشہ کی طرح اپنے خوبصورت الفاظ میں، اپنے پینتیس سالہ عشقِ ترکی کی مختصر داستان بیان کی ہے۔ گوئندی صاحب چوں کہ اپنے تجربات ومشاہدات میں دیگر احباب کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں اس لیے مستقبل قریب میں آپ ترکی کے ایک ایسے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں بہت سے لوگ آپ کے ہم سفر ہوں گے۔ گوئندی صاحب نے اس سفر کوتفریح نہیں بلکہ جہاں گردی کا نام دیا ہے۔ یعنی معلومات سے بھرپور اُن کے پینتالیس سفروں کا نچوڑ۔ ایسا سفر جو پاکستان و ترکی کے مابین عظیم رشتوں کو مزید مضبوط کرے گا۔
گوئندی صاحب کا یہ کالم پڑھ کر میرا جی چاہا کہ کیوں نہ ترکی کے سفرناموں پر مختصراً کچھ لکھا جائے۔ سفرنامہ کا شمار اُردو زبان کی بہترین بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اور مجھے ذاتی طور پر بھی ادب کی یہ صنف بہت پسندہے۔ گذشتہ رات، وقت کا خیال نہ رکھتے ہوئےمیں نے اپنی ذاتی لائبریری کا رخ کیا جو میرے مکان کی اوپری منزل پر قائم کی گئی ہے۔ کتابیں پڑھنے والوں کے بہت سے مسائل ہوں گے جن میں ایک یہ بھی ہے کہ انہیں جس وقت کسی کتاب کی طلب ہو جائے، اُس کتاب کا اُسی وقت ملنا بے حد ضروری ہو جاتا ہے، سو ایسی ہی کسی کیفیت کے ساتھ مَیں اپنی لائبریری میں موجود تھا۔ سفر ناموں کے گوشہ میں تین سو سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ ان میں جب ترکی کے سفر ناموں کی تلاش شروع ہوئی تو کتابوں کا اچھا خاصا ڈھیر شیلف سے الگ ہو گیا۔ یہ کوئی تیس کے قریب سفرنامے اکٹھے ہو گئے۔ اتنے زیادہ سفرناموں کی تفصیل لکھنا بھی ایک مشکل کام ہے اور اس تفصیل کا چھپنا ایک الگ مسئلہ۔ سو کافی سوچ بچار کے بعد دس سفرناموں کا انتخاب کیا اور ان کی تفصیل میں قارئین کو شامل کرنے کا سوچا۔ اتفاق کہہ لیں کہ پہلے پانچ سفرنامے آپس میں اچھا خاصا تعلق رکھتے ہیں، جس کا اندازہ آپ کو اس مضمون کے مطالعہ سے ہو گا۔
سب سے پہلی کتاب جو میرے ہاتھ میں ہے یہ اُردو میں جدید سفرناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ ہے، ”نکلے تیری تلاش میں‘‘۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تارڑ صاحب ایک ممتاز سفرنامہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نویس اور ٹی وی میزبان ہیں۔ میرے ہاتھ میں یہ کتاب دراصل تارڑ صاحب کا پہلا سفر نامہ ہے جس میں آپ کے ترکی سمیت، یورپ کے دورے کا احوال ہے۔ اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سفر انہوں نے ہوائی جہاز کے بجائے زمینی رستہ اختیار کرتے ہوئے کیا۔ افغانستان اور ایران سے ہوتے ہوئے تارڑ صاحب بذریعہ ریل بازنطائن، قسطنطنیہ یا استنبول کی سیر کو نکلتے ہیں۔ تارڑ صاحب اس سفرنامہ کے حوالہ سے اپنے تازہ کالم ”الحمرا کی کہانیاں اور اندلس میں اجنبی‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:
”بے شک یہ میری پہلی کتاب، پہلا سفر نامہ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ تھا جس نے غیر متوقع طور پر‘ مجھے حیران اور بے یقین کرتے ہوئے میرے لیے ادب میں کامیابی کے سب دروازے کھول دیے۔ بیسٹ سیلر ہونے کے علاوہ جب آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر یہ سفر نامہ ماسکو یونیورسٹی کی پروفیسر گالینا ڈشنکو نے یونیورسٹی کے اُردو نصاب میں شامل کیا تو ادب کے وہ دروازے بھی کھل گئے جو کم کم ہی کھلتے تھے، جن کی چوکھٹوں پر مجھ سے کہیں بڑھ کر باصلاحیت اور تخلیقی ادیب پڑے رہے اور یہ دروازے نہ کھلے۔ میری صلاحیت ابتدائی تھی اور تخلیقی جوہر معمولی تھا لیکن نصیب کے منہ زور گھوڑے نے میرا چناؤ کر لیا۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ میں ایک عظیم ادیب وغیرہ نہیں ہوں، ایک خوش نصیب ادیب ہوں۔‘‘
آپ کو سچ بتاؤں کہ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ ہی وہ پہلی کتاب ہے جس نے مجھے تارڑ صاحب کے سفرناموں کے عشق میں مبتلا کیا۔ تارڑ صاحب کی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کوبھی ’’سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے ہی شائع کیا ہے۔
جناب آگے بڑھتے ہیں۔ میرے پاس یہ دوسری کتاب فرخ سہیل گوئندی کی ہے جس کا عنوان ہے،’’ترکی ہی ترکی‘‘۔ بنیادی طور پر یہ کتاب، فرخ سہیل گوئندی کےملکِ ترکی کے سفروسیاحت، سیاسی و سماجی حالات، تہذیب وثقافت اور تاریخ پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً روزناموں میں شائع ہوتے رہے۔ اس کتاب میں گوئندی صاحب سے کیے جانے والے انٹرویوز کو بھی شامل کیا گیا ہے جن میں انہوں نے ترکی کے سیاسی اور سماجی حالات، خطے میں اس کے کردار اور ماضی و مستقبل پر روشنی ڈالی ہے۔ ظاہر ہے ترکی ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ اس ضمن میں ترکی کے سابق وزیرِ اعظم بلند ایجوت مرحوم کا کہنا ہے کہ:
”فرخ سہیل گوئندی میرے ان دوستوں میں سے ہیں جن کے ساتھ سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنے پر لطف آتا ہے۔ وہ پاکستان کے علاوہ، عالمی سیاست، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اور ترکی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ترکی کے بارے میں وہ کسی ترک دانشور سےکم آگاہ نہیں۔ وہ ترکی کی تاریخ، سیاست اور ثقافت پر حیرت انگیز گرفت رکھتے ہیں۔ ترکی کے بارے میں ان کی دلچسپی دونوں ملکوں کے عوام میں تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا سبب بنے گی۔‘‘
اس سفر نامہ کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ: ”گوئندی کا یہ کالمی ترک سفرنامہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ بے شک پاکستان میں کوئی اور ایسا ادبی اور سیاسی دانشور نہیں ہے جو ترکی کی سیاسی، نفسیاتی، تاریخی روح میں گوئندی کی مانند اترا ہو۔ اس کی نشست و برخواست، شب و روز اور زندگی کا ہر سانس ترکی میں ہی چلتا ہے۔ مجھے گمان ہے کہ کسی پچھلی حیات میں وہ ایک ترک تھا۔۔۔ اتاترک کے ہریاول دستے میں تھا، گیلی پولی کے معرکے میں انگریزوں کو شکست دینے والی سپاہ میں وہ بھی شامل تھا۔۔۔ توپوں کے گولوں سے بہرے ہو چکے غازی عصمت انونو کے کانوں میں گوئندی سرگوشیاں کیا کرتا تھا۔۔۔‘‘
ترکی موضوع پر اس جامع اور معلومات افزا کتاب کو ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔
آج کا یہ تیسرا سفرنامہ ”استنبول کہ عالم میں منتخب‘‘ کے عنوان سے محترمہ سلمیٰ اعوان کا تحریر کردہ ہے۔ سلمیٰ اعوان کا شمار بھی پاکستان کی صفِ اول کی خواتین لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نویس اور سفر نامہ نگار ہیں۔ آپ نے یہ سفر نامہ ترکی بہت عمدہ انداز میں تحریر کیا ہے۔ اپنے اس سفرِ ترکی کے محرکات کے حوالے سے سلمیٰ اعوان لکھتی ہیں: ”سچ یہی ہے کہ ہماری جڑیں تو برصغیر کی اُسی تاریخ اور روایات سے جڑی ہیں جن کے حامل ہمارے آباؤاجداد تھے۔ اُن کے لیے مکہ و مدینہ کے بعد عقیدتوں کا مرکز استنبول کی خلافت تھی۔ ترکی کے ہیرو سلطان محمد فاتح، سلیمان ذیشان اور اتاترک سے ہمارا پیار ترکی کے لوگوں سے کیا ہی کم ہوگا۔ ایسے میں ترکی جانے کے لیے دل کا مچلنا فطری امر تھا اور کچھ جاننے کے لیے لاہور میں ایک ہی آدمی جان پڑتا تھا جو زمانوں سے ترکی کے عشق میں مبتلا ہے۔ اور وہ کون ہے؟ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ فرخ سہیل گوئندی۔۔۔‘‘
سلمیٰ اعوان کے اس خوبصورت سفرنامہ کو ”دوست پبلیکیشنز، اسلام آباد‘‘ نے شائع کیا تھا۔
میرے زیرِ مطالعہ یہ چوتھا سفر نامہ بنیادی طور پر ”اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی‘‘ کی جدید اُردو سیریز کی ایک کڑی ہے جس کا عنوان ہے ”مجموعہ محمد خالد اختر (سفرنامے)‘‘۔ ہم جانتے ہیں کہ محمد خالد اختر نے اُردو کے ایک منفرد اور صاحبِ اسلوب ادیب کے طور پر افسانے، ناول، سفرنامے، مزاح، تنقید، تبصرے، پیروڈی، خطوط، یادداشتوں اور ترجمے کے میدانوں میں اپنا لوہا منوایا۔ زیرِ نظر کتاب اُن کے دس مختصر اور طویل سفرناموں پر مشتمل ہے۔ اس جلد میں ”استنبول کے گنبد‘‘ اور ”کیا ہم ابھی قونیہ میں ہیں‘‘ کے عنوان سے سفرنامہ ترکی کا حال بھی نہایت خوبصورت انداز میں شائع کیا گیا۔ یہ ایک معلومات آفریں سفر نامہ ہے جس میں تاریخی واقعات بھی ہیں اور مختلف سلاطین کی زندگی کے حالات بھی۔ ساتھ ہی اس میں ترکی کے باغات کا ذکر بھی موجود ہے اور قدیم تعمیرات کا بیان بھی۔ مختلف مساجد، مقابر اور گنبدوں کے ساتھ ساتھ استنبول کے گلی کوچوں، بازاروں، ریستورانوں اور یہاں کی زبان اور معاشرت کے حوالے سے بھی عمدہ معلومات پیش کی گئی ہے۔ محمد خالد اختر کا شمار مستنصر حسین تارڑ کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی حوالے سے تارڑ صاحب نے ”خطوط: شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، محمد خالد اختر‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی ترتیب دی جو 2012ء میں شائع ہوئی تھی، جس میں تارڑ صاحب نے اپنے ان تین قریبی دوستوں کے ساتھ کی گئی خط و کتابت کو شاملِ اشاعت کیا تھا۔
آج کا یہ پانچواں سفر نامہ فیروز شاہ گیلانی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ہے: ”یار ترکی‘‘۔ اس کتاب کو بھی ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔ فیروز شاہ گیلانی کا یہ سفر نامہ ترکی کی قدیم اور جدید تاریخ پر ایک جھلک بھی ہے جس میں آپ نے ترکی کے سفر کے ساتھ ساتھ وہاں کے تہذیب و تمدن، ثقافت اور معاشرے کو بہت خوبصورت انداز میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کتاب کے ناشر فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں کہ: ”عثمانی و جدید ترکی اور اس دھرتی پر پھیلے متعدد تہذیبوں کے آثار پر اِن (فیروز شاہ گیلانی) کی قلم کاری، عوام کو ترکی کے نئے دریچوں سے آگاہ کرے گی۔‘‘
نامور ادیبہ بشریٰ رحمٰن کے مطابق: ”یہ سفر نامہ پڑھنے کے بعد سیاحت کے رسیا لوگوں کو سلجوق یونیورسٹی، گوریمے، انطالیہ، ازمیر اور افسس دیکھنے کی تمنا بے چین کر دے گی۔‘‘
مزید آگے بڑھتے ہیں۔ ”قاردش‘‘ کے عنوان سے یہ چھٹا سفرنامہ ہمارے دوست ادیب حسنین نازشؔ کا تحریر کردہ ہے۔ ترکی زبان میں لفظ ”قاردش‘‘ خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب بھائی یا دوست ہے اور یہ غالباً ترکی کا پہلا سفرنامہ ہے جو اس نام سے تحریر کیا گیا ہے۔ اپنے اس سفر نامے میں حسنین نازش ؔ نے ترکی کی سیر کے ساتھ ساتھ ترکوں کی بے شمار خوبیاں، خصوصیات اور عادات بھی بیان کی ہیں۔ کتاب کا پہلا ہی باب پڑھ کر دل میں ترکی جانے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے اور ساتھ ساتھ ترکی زبان سیکھنے کی جستجو، اُمنگ اور شوق بڑھ جاتاہے۔ مصنف نے دورانِ سفر راستے کی رومانوی، افسانوی اور طلسماتی کہانیوں کے ساتھ ساتھ آبنائے باسفورس کے قصے اور سحر انگیز مناظر بہت خوبصورت انداز میں بیان کیے ہیں۔ بلا شبہ ترکی کے سفرناموں میں ”قاردش‘‘ ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ حال ہی میں حسنین نازشؔ کا سفرنامہ چین، ”دیوارِچین کے سائے تلے‘‘ شائع ہو کراکابرینِ ادب سے داد حاصل کر چکا ہے۔
یہ اگلا سفرنامہ ممتاز ماہرِ اقبالیات، محقق اور ادیب محمد حمزہ فاروقی کا تحریر کردہ ہے جس کا عنوان ہے: ”قیدِ مقام سے گزر‘‘۔ اپنے اس سفر نامہ میں جناب حمزہ فاروقی نے اپنے مشرق و مغرب کے اسفار بیان کیے ہیں۔ اس سفرنامہ کا ایک حصہ ترکی کے سفر پر مشتمل ہے۔ حمزہ فاروقی نے اپنے اس سفر نامہ میں ترکی کے سفر کے ساتھ ساتھ ترک معاشرے کے افراد کی اخلاقی و تہذیبی روایات، ان کی نفسیات اور ان کی تاریخ و معاشرت کا بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے۔ معروف اسکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رائے کے بعد اس سفرنامہ کا مزید تعارف کیا بیان ہو، آپ لکھتے ہیں: ”جو عناصر حمزہ صاحب کے سفرناموں کو ان کے معاصروں کے تحریر کردہ سفرناموں سے ممتاز کرتے ہیں، ان میں ان کی نفیِ ذات، تاریخ اور معاشرے کا باہمی ربط اور تجزیہ، زبان کی دلچسپی اور بیان و اسلوب کی شگفتگی نمایاں ہیں۔‘‘
اس کتاب کو ”اکادمی بازیافت، کراچی‘‘ نے 2005ء میں شائع کیا تھا۔
زیرِ نظر آٹھواں سفر نامہ ”زبانِ یارِ من ترکی‘‘ کے عنوان سےجسٹس (ر) خواجہ محمد شریف کا تحریر کردہ ہے۔ مصنف نےترکی کا یہ سفر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک ستر رُکنی وفد کی صورت میں کیا۔ نو دنوں پر مشتمل اس سفر کے دوران جسٹس صاحب نے استنبول اور بُرسا کے شہروں کا دورہ کیا اور وہاں کی سیاسی، سماجی اور شعبہ قانون و وکالت سے منسلک شخصیات سے ملاقات کی۔ ساتھ ہی ساتھ مختلف تاریخی و تفریحی مقامات کی بھی سیر کی۔ جسٹس (ر) خواجہ محمد شریف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور اس سفرِ ترکی سے قبل بھی نہ صرف بہت سے ممالک کی سیر کر چکے ہیں بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں اُن ممالک کے بہت سے سفرنامے بھی تخلیق کر چکے ہیں۔ جسٹس صاحب کے اس سفر نامہ کو ”الفیصل ناشرانِ کتب، لاہور‘‘ نے شائع کیا ہے۔
میرا منتخب کردہ یہ نواں سفرنامہ ڈاکٹر احمد بختیاراشرف (اے، بی، اشرف) کا ہے جس کا عنوان ہے: ”ذوقِ دشت نوردی‘‘۔ ڈاکٹر اے بی اشرف کا یہ سفرنامہ کوئی مربوط یا مسلسل سفرنامہ نہیں بلکہ انہوں نے الگ الگ ہر ملک کے سفروں کی یادداشتیں رقم کی ہیں جن میں ترکی، ہالینڈ، یونان، یوگوسلاویہ، اٹلی، آسٹریا، چیکوسلواکیہ، ہنگری، بلغاریہ، شام، عراق، اُردن اور مصر شامل ہیں. ڈاکٹر صاحب کا مقصد سفرنامہ نگاری کے کلاسک طرزِ تحریر میں اپنی یادداشتوں اور تجربات رقم کرکے انہیں قارئین سے متعارف کروانا، انہیں رہنمائی اور اجنبی ملکوں کی معلومات بہم پہنچانا ہے۔ ان کی تحریروں میں تحقیق، وسیع مطالعہ اور مشاہدہ کا ایک حسین امتزاج اور ادبی چاشنی پائی جاتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف کا اُردو ادب میں اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ بحیثیت استاد انہوں نے پاکستان کی اعلیٰ تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ ترکی کی مختلف جامعات میں بھی اُردو کے استاد کے طور پر بے شمار ترک طلباء کو اُردو زبان وادب سے آراستہ کیا۔ اب تک ان کی 23 کتابیں مختلف موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں۔ پاکستان اور ترکی میں ان کی اُردو ادب میں شاندار خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے ان کو 2013ء میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ پہلی بار یہ سفرنامہ 1993ء میں ’’سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور‘‘ نے شائع کیا تھا جب کہ اس کی دوسری بار اشاعت ”جمہوری پبلیکیشنز، لاہور‘‘ کے زیرِ اہتمام 2015ء میں ہوئی۔
آج کی یہ دسویں اور آخری کتاب، ”یورپ کی دہلیز پر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر اشرف کمال کا تحریر کردہ ایک شاندار سفر نامہ ترکی ہے جس میں انہوں نے اپنے سفرِ ترکی اور دورانِ سفر درپیش حالات کو من و عن بیان کر کے اس سفر نامے کو حقیقی رنگ میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال ایک محقق، نقاد، شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، ناول نویس اور ماہرِ تعلیم ہونے کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا کلام اور تحریریں ملکی و غیر ملکی جرائد میں تواتر سے پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مصنف کا تعلق شہربھکر سے ہے جہاں یہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں صدر شعبہ اُردو کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ ترکی میں اُردو زبان کی تدریس کو (1915ء سے 2015ء تک) سو سال مکمل ہو چکے ہیں اور اسی غرض سے سیمپوزیم میں شرکت کے لیے وہاں سے شعبہ اُردو کے صدر ڈاکٹر خلیل طوق ارکی دعوت پر ڈاکٹر محمد اشرف کمال ترکی روانہ ہوئے اور اس سفر کی روداد نہایت عمدہ انداز میں تحریر کی۔ اس سفر نامہ کو ”رنگِ ادب پبلیکیشنز، کراچی‘‘ نے شائع کیا۔
تو جناب یہ تھا ہمارے عشقِ ترکی کا کچھ حال احوال۔ ابھی میرے سامنے ترکی کے بہت سے سفرنامے پڑے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی تفصیل میں گئے تو صفحوں کے صفحے بھرجائیں گے، لہٰذا انہی دس سفرناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔