خود کو تنہا پایا ہے – نائلہ راٹھور

اندیشوں اور واہموں نے
کچھ یوں گھیر رکھا ہے کہ
وبا
روح میں خوف بن کر سرائیت کر گئی ہے
بہت عزیز بھی کوئی اگر سر راہ مل جائے تو کترا کر گزرنے کی کرتا ہے
گر آواز دے کر پکار لیں تو مسکرا کہتا ہے
آپ پہچان میں نہیں آئے
ماسک جو پہن رکھا تھا شائد
سن کر بات انکی دل ہی دل میں ہنستے ہیں
اس ماسک کی حقیقت ہے کیا
خوشبو سے پہچان لیتے تھے
کبھی اک دوسرے کو ہم
وبا تو اک بہانہ تھی
وگرنہ غرض کے رشتوں نے برسوں سے
جو نقاب اوڑھ رکھا تھا
اس ماسک نے اس کو اتار پھینکا ہے
کل میں نے ہجوم یاراں میں
خود کو تنہا دیکھا ہے
خود کو تنہا پایا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں