پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت – عبد الرحیم عزمؔ

یہ وادی کشمیر ہے کہ فردوس بریں ہے
اسلام کے تہذیب و تمدن کی امیں ہے
لتھڑی ہوئی پھر خون سے آج اس کی جبیں ہے
محفوظ نہ ظالم سے مکاں ہے نہ مکیں ہے

جموں و کشمیر جنوبی ایشیا (برصغیر) کی سب سے بڑی شاہی ریاست تھی، جسے مغل شہنشاہوں نے جنت ارضی کا نام دیا جہاں مسلمان دو تہائی اکثریت میں آباد تھے۔ مگر وقت کی ستم ظریفی اور شومئی قسمت سے حاکمان وقت نے جان بوجھ کر اس کا الحاق قانون آزادی ہند 1947ء کی کھلم کھلا خلاف ورزی، وہاں کے عوام کے جذبات و خواہشات کے بر عکس ایک ایسے ملک سے کردیا جس کے ساتھ اس کی سرحد ہی نہیں ملتی تھی۔ برطانیہ سرکار کے حد بندی کمیشن نے ہندو اور انگریز کی ملی بھگت اور ساز باز سے ناانصافی کرتے ہوئے گورداس پور کے ذریعہ بھارت کو کشمیر تک رسائی دے کر نہ صرف مسلمانوں سے ازلی دشمنی کو نبھایا بل کہ برصغیر کو ایک سلگتے ہوئے آتش فشاں (مسئلہ) کے دہانے پر کھڑا کر کے آزادی کے نام پہ خود بھاگ گیا اور اب آگ اور خون کے اس کھیل کو خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہا ہے۔
تقسیم ہند کے قوانین کے منافی یہ فیصلہ دو ایٹمی ملکوں کے مابین گزشتہ پچھتر سالوں میں چار خون ریز جنگوں کا موجب بن چکا ہے۔ دونوں جانب کے عوام میں کشیدگی اور خوف کی فضا دوام اختیار کر چکی ہے۔ جب کہ قابض ملک بھارت کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو غصب کر نے کے لیے جملہ مظالم اور حربے آزمانے کے باوجود ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جنگی جنوں میں مبتلا و مستغرق یہ ملک کشمیر میں مسلمانوں کی دو تہائی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کشمیر کی ریاستی حیثیت کو ختم کر کے اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا چکا ہے۔ اسی لیے بھارت نے سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر جنت نظیر وادی کو جلانے کے لیے مسلط کر رکھی ہے جب کہ کشمیری عوام قابض افواج سے آزادی کے لیے اپنا تن من دھن نثار کر رہے ہیں۔
جموں و کشمیر کی پاکستان کے ساتھ جغرافیائی، مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی و قربت ہونے کی بنا پر وہاں کے عوام تقسیم ہند کے وقت سے پاکستان کا حصہ بننے اور اس کے ساتھ الحاق کے شدید خواہاں ہیں۔ ان کا یہ حق عالمی ادارے تسلیم کر کے کئی بار قراردادیں بھی منظور کر چکے ہیں اس لیے ان کی غمگین اور نم آنکھیں عالمی اداروں، امت مسلمہ اور خاص طور پر پاکستان کی جانب اٹھتی ہیں تاکہ ان کے رستے زخموں پر مرہم رکھے، ان کی داد رسی کرے، انھیں ان کا تسلیم شدہ حق دلائے لیکن پاکستان تو اپنے معاشی و سیاسی معاملات میں الجھا ہے یہاں کے صاحبان اقتدار کشمیریوں کو مذمت کے نغموں سے بہلانے اور طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہیں کر پا رہے. وہ قرض کی مے پی کر بھی ایوانوں میں ایک دوسرے کا سیاسی اکھاڑا دیکھنے میں مگن و مست ہیں۔ اگر کبھی ہوش کے ساتھ جوش میں بھی آ جائیں، فرصت پا لیں تو مسئلہ کشمیر پہ سرسری گفتگو پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا پھر صرف مذاکرات کی مالا جپتے رہتے ہیں۔ جب کہ عالمی ادارے (اقوام متحدہ اور او آئی سی) اس طرف نگاہ التفات ڈالنے کے بجائے قابض ملک کے بے لگام عفریت کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں، جس کی بنا پر وہ کشمیری عوام پر جبر و استبداد کا شکنجہ مضبوط کیے جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں کشمیری عوام تاسف اور مایوسیت کے مر ض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ایک کھولتا اور دہکتا ہوا حباب بن رہا ہے جو کسی بھی وقت پورے ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر قعر بربادی میں غرق کر سکتا ہے اس لیے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی خاص طور پر پاکستان کے لیے اشد ضرورت ہے کیوں کہ کشمیری پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اگر حقیقت سے صرف نظر نہ کیا جائے تو بہت سے عوامل اس بات کے گواہ ہیں کہ کشمیریوں کی جملہ قربانیاں پاکستان کے لیے ہیں کیوں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تکمیل اور ا س کا وجود بھی خطرے میں ہے ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا نام ہی کشمیر کے بغیر مکمل نہیں ہو تا کیوں کہ لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی نے پاکستان کے نام میں حرف ’’ ک‘‘ کشمیر سے لیا۔
کشمیر کو جہاں بھر کے اہلِ نظر جنت کہتے ہیں اور ہمارے عقیدہ و ایمان کے مطابق جنت کسی کافر کو نہیں ملتی. جب کہ کافر اس پر زبردستی قبضہ جما کے بیٹھے ہیں اس لیے اس جنت کو کفر کے چنگل سے آزاد کروانا مسلمانوں پر فرض ہے۔

یاراں جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

تقسیم ہند کے قوانین میں ریاستوں کے بارے فیصلہ کیا گیا کہ وہاں کے عوام جس ملک کے ساتھ چاہیں گے اس کے ساتھ ان کا الحاق کر دیا جائے گا چوں کہ کشمیری عوام تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے اس لیے کشمیر پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔ہند وستان کے تقریبا ً سبھی صوبوں کو دینی لحاظ سے وابستگی کے مطابق تقسیم کر کے دونوں ملکوں کا حصہ بنایا گیا. کشمیریوں کی اکثریت مسلمان ہونے کے ناطے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے۔
جموں و کشمیر سے نکلنے والے دریا مثلاً جہلم، چناب، سندھ وغیرہ پاکستان کی طرف بہتے ہیں، یہاں کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اس لیے وہ پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا پاکستان کی زرعی و آبی بقا کے لیے کشمیر ایک جزو لاینفک ہے مگر کشمیر پر بھارت کا قبضہ پاکستان کو آبی وسائل سے محروم کر رہا ہے جس سے پاکستان کا مستقبل زرعی و آبی ہر دو لحاظ سے خطرے میں ہے. اس لیے پاکستان کو اپنی بقا اور سلامتی کے لیے بھی بھارت کے قبضے سے کشمیر کو آزاد کروانا چاہیے۔
کشمیر پر بھارتی قبضے کی وجہ سے پاکستان کو ایک طویل سرحد کا دفاعی نظام چلانا پڑتا ہے جس پر ملکی آمدن کا ایک خطیر حصہ خرچ ہو جا تا ہے اور ملکی معیشت استحکام کو نہیں پہنچ پا رہی۔ اس کے علاوہ پاکستانی عوام کی اکثریت دینی و نظریاتی لحاظ سے کشمیریوں کے بارے فکر مند رہتی ہے جس کی وجہ یہاں کشمیریوں کی اخلاقی و نظریاتی حمایت کے لیے آئے روز ہڑتالیں، جلسے جلوس وغیرہ ہوتے رہتے ہیں جس سے ملکی کاروبار زندگی شدید متاثر ہو تا ہے اور ملکی معیشت پر اس کا برا اثر پڑتا ہے لہذا پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔
چوں کہ جغرافیائی خد و خال کے لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر کی زیادہ تر سرحد پاکستان سے ملتی ہے اس لیے پاکستان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ اس جغرافیائی حقیقت کے مطابق جموں و کشمیر کا سارا نظام زندگی پاکستان سے وابستہ ہے۔ خور و نوش کا سامان، بجلی، مواصلات، پانی کا نظام اور جملہ تجارت پاکستان کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کشمیر کو جانے والے تینوں راستے پاکستان سے ہی جاتے ہیں لہذا کشمیر کی بقا بھی اسی میں ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ بنے۔
مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے وسائل سے مالا مال دونوں ملک (پاکستان اور بھارت) ہر وقت حالتِ جنگ میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہے. دونوں طرف کے عوام خوف اور کشیدگی کی فضا میں جیتے ہیں، خوش حالی اور ترقی سے کوسوں دور ہیں۔ اگر بھارت ہٹ دھرمی چھوڑ دے تو مسئلہ کشمیر کو حل کر کے اچھے ہمسایوں کی طرح باہم تجارت سے ایشیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوا جا سکتا ہے.
کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور جزو لاینفک ہے. اس پر قبضہ پاکستان پر قبضہ کے مترادف ہے۔ پاکستان کو اپنی بقا اور تکمیل کے لیے کشمیریوں کی ہر ممکن مدد کر نی چاہیے، وہ اس لیے کہ کشمیر کی بقا اور آزادی سے ہی پاکستان کی بقا آزادی اور سلامتی وابستہ ہے۔ کشمیر کی آزادی سے ہی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں